لوئر کرم میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع؛ ”بدقسمتی سے دہشت گرد پرامن قبائل میں گھس گئے ہیں”
ریاست پرامن عناصر کے ساتھ کھڑی ہے اور ظالم عناصر کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ متاثرہ علاقوں میں موجود چند شرپسندوں کے خلاف کارروائی ناگزیر ہو چکی ہے۔ بیرسٹر سیف
لوئر کرم میں انتہاپسندوں کے خلاف آپریشن سے متعلق کمشنر کوہاٹ ڈویژن معتصم باللہ نے کہا ہے کہ کرم میں ٹارگٹڈ آپریشن کیا جا رہا ہے؛ بدقسمتی سے دہشت گرد پرامن قبائل میں گھس گئے ہیں۔
گزشتہ روز ڈی پی او آفس ہنگو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کمشنر کوہاٹ معتصم باللہ اور آر پی او کوہاٹ ریجن عباس مجید مروت کا کہنا تھا کہ کرم کے حوالے سے فریقین نے کوہاٹ میں جو امن معاہدہ کیا تھا وہ کرم کی تاریخ میں سب سے زیادہ پراثر اور حالات کے عین مطابق پیش رفت تھی جس کے تحت فریقین نے پائیدار امن کیلئے اپنے اپنے کردار کا تعین کیا۔
اتوار سے باقاعدہ آپریشن کا آغاز
اتوار سے ضلع کرم میں سیکیورٹی فورسز نے انتہاپسندوں کے خلاف باقاعدہ شروع کر دیا۔ کرم کے موجودہ حالات سے متعلق صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ کرم کی صورتحال پر اعلٰی سطحی میٹنگ ہوئی جس میں چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا، اور آئی جی پولیس کے علاوہ دیگر سول و پولیس افسران شامل تھے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ شرپسند عناصر کے خلاف بلاتفریق سخت کارروائی کی جائے گی۔ ترجمان صوبائی حکومت کے مطابق ریاست پرامن عناصر کے ساتھ کھڑی ہے اور ظالم عناصر کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ متاثرہ علاقوں میں موجود چند شرپسندوں کے خلاف کارروائی ناگزیر ہو چکی ہے۔
بگن آپریشن کی مذمت
سیکیورٹی اداروں نے گزشتہ روز لوئر کرم کے علاقے بگن میں مورچوں پر کنٹرول حاصل کر کے انتہاپسندوں کے خلاف بھاری ہتھیار استمال کرتے ہوئے آپریشن شروع کر دیا۔ علاقے سے لوگوں نے محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی بھی شروع کی۔ مندوری کے مقام پر جاری دھرنے کے منتظم اعلی حاجی کریم اورکزئی کا کہنا تھا کہ بگن میں فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا ہے اور علی زئی قلعے سے بگن پر توپوں سے شیلنگ جاری کی گئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مندوری میں دھرنا جاری ہے۔ بگن آپریشن کی مذمت کرتے ہیں۔ ایک طرف ہمارے گھروں کو جلایا گیا اور دوسری طرف اب آپریشن کر کے ہمیں مزید تباہ کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تحریری مطالبات کے بعد سخت فیصلہ: کیا مذاکرات کا دردناک انجام قریب ہے؟
بگن آپریشن کیخلاف مقامی لوگ بھی سرتاپا احتجاج ہیں۔ آپریشن کے خلاف گزشتہ روز اسلام آباد اور صدہ میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے جبکہ لوئر کرم مندوری کے مقام پر احتجاجی دھرنا تاحال جاری ہے۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ بلاتفریق چھپری سے لے کر پاراچنار تک ایپکس کمیٹی کے فیصلوں پر عمل درامد کرتے ہوئے آپریشن کیا جائے۔
حکومت سخت اقدام پر مجبور کیوں؟
معتصم باللہ نے کہا کہ کرم میں امدادی اشیاء کے دو قافلے بخیر و عافیت اپنے علاقوں تک پہنچائے گئے اور امن کمیٹیوں نے ان قافلوں کو تحفظ فراہم کیا تاہم تیسرے قافلے پر حملے نے سیکورٹی فورسز اور انتظامیہ کو سخت اقدام پر مجبور کیا۔ انہوں نے کہا کہ امن معاہدے کی رو سے جس علاقے میں قانون کی خلاف ورزی ہوئی اسی علاقے میں آپریشن کیا جائے گا۔ اسی معاہدے کے مطابق ٹارگٹڈ آپریشن کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت، سیکورٹی ادارے اور انتظامیہ کرم کے عوام کی مشکلات کم کرنے کیلئے بھرپور انداز میں کام کر رہے ہیں اور پاراچنار سمت متاثرہ علاقوں میں بزریعہ ہیلی کاپٹر ادویات اور امدادی سامان پہنچایا جا رہا ہے۔
آر پی او عباس مجید مروت نے کہا کہ سوشل میڈیا نے کرم کے حالات بگاڑنے میں کردار ادا کیا جس کے خلاف ایف آئی اے تحقیقات کر رہی ہے۔ قبل ازیں آر پی او اور کمشنر نے ہنگو کے ان مقامات کا جائزہ لیا جہاں پر ٹی ڈی پیز کو رکھا جائے گا۔
امن معاہدے پر قانون اور پشتون روایات کے مطابق عملدرآمد
‘بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ امن معاہدے پر قانون اور پشتون روایات کے مطابق عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ شرپسندوں کے خلاف کارروائی میں پولیس اور سول انتظامیہ کی مدد کیلئے سکیورٹی فورسز موجود ہوں گی۔ حکومت کو خدشہ ہے کہ امن پسند لوگوں کے درمیان کچھ شرپسند گھس گئے ہیں۔ امن پسند لوگوں کو نقصان سے بچانے کیلئے انہیں شرپسندوں سے الگ کر کے کارروائی کی جائے گی۔ متاثرہ علاقوں کے عوام کے لیے رہائش کے بہترین متبادل انتظامات کیے گئے ہیں۔ حکومت فریقین سے درخواست کرتی ہے کہ اپنے درمیان موجود شرپسندوں کی نشاندہی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کریں۔ خیبر پختونخوا حکومت گزشتہ تین مہینوں سے کرم میں پرامن طریقے سے امن بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
عوام سے اپیل
انہوں نے مزید کہا کہ گرینڈ جرگے کے ذریعے پشتون روایات کے مطابق امن معاہدہ کیا گیا۔ کرم میں چند شرپسند عناصر نے امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کی۔ شرپسندوں نے ڈپٹی کمشنر پر قاتلانہ حملہ کیا جس میں وہ شدید زخمی ہوئے۔ شرپسند عناصر سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور امدادی سامان کے قافلوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ عوام سے اپیل ہے کہ وہ متاثرہ علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ حکومت جلد ہی متاثرہ علاقوں سے شرپسندوں کا خاتمہ کر کے علاقے میں امن بحال کر دے گی۔ حکومت نے امن معاہدے کے مطابق امن بحال کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ کرم کے عوام امن چاہتے ہیں اور امن معاہدے کا احترام اور پاسداری کرتے ہیں۔
بگن متاثرین کیلئے عارضی کیمپ قائم
پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے ضلع کرم کے علاقے بگن متاثرین کے لیے ہنگو میں عارضی کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
ڈپٹی کمشنر ہنگو گوہر زمان کے مطابق علاقہ محمد خواجہ میں بگن متاثرین کے لیے عارضی کیمپ قائم کیا جائے گا، ہزاروں خاندانوں کے لیے سینکڑوں ایکڑ اراضی پر خیمہ بستی قائم کی جائے گی اور کیمپ کے قریب سکول، مساجد، بی ایچ یو اور دیگر سہولیات میسر کی جائیں گی۔
ڈی سی نے اس حوالے سے میڈیا کو بتایا کہ پراونشل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) خیموں سمیت دیگر سامان کے 22 ٹرک فراہم کرے گی، ضلعی انتظامیہ کو 4 ٹرک سامان مل گیا ہے اور آج سے کیمپ کے قیام پر کام شروع کر دیا جائے گا۔
گوہر زمان نے مزید بتایا کہ قیام امن کے لیے نقل مکانی کرنے والے متاثرین کو تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں لوئر کرم کے علاقے بگن میں امدادی سامان کے قافلے پر حملہ ہوا تھا جس میں چھ حملہ آوروں کی ہلاکت کے علاوہ دو اہلکاروں سمیت آٹھ افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس حملے کے بعد حکام نے علاقے میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کر لیا۔