حکومتی ”گمراہ کن” بیانات کی مذمت؛ کرم میں کل سے تعلیمی ادارے بند، احتجاجی تحریک کی دھمکی
حکومت عوام کی جان و مال کو تحفظ دینے کی بجائے مزید اذیت دینے کی کوشش کر رہی ہے؛ عوام کو خوراک و علاج سے محروم کر کے مارنا چاہ رہی ہے۔ مرجان علی و دیگر
ضلع کرم میں آمدورفت کے راستوں کی بندش سے کاروبار زندگی مفلوج؛ کل سے احتجاجاً تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان، جبکہ سیاسی حلقوں نے احتجاجی تحریک کی دھمکی دے دی۔
پاراچنار پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مرجان علی، زاہد حسین و تعلیمی اداروں کے دیگر سربراہان نے کہا کہ چونکہ حکومت عوام کی جان و مال کو تحفظ دینے کی بجائے مزید اذیت دینے کی کوشش کر رہی ہے؛ عوام کو خوراک و علاج سے محروم کر کے مارنا چاہ رہی ہے، خوراک و ادویات کے ساتھ ساتھ پیٹرول بھی ختم ہو گیا ہے لہذا کل سے احتجاجاً غیرمعینہ مدت تک تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔
دوسری جانب سماجی کارکن میر افضل خان نے پاک یوتھ موومنٹ کے کارکنوں کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بچوں کی اموات اور راستوں کی بندش کے حوالے سے صوبائی وزیر ہشام خان اور بیرسٹر سیف کے گمراہ کن بیانات کی شدید مذمت کی اور کہا کہ ہسپتال اور میڈیکل سٹوروں میں ادویات ختم ہونے کے باعث بچے مر رہے ہیں اور ذمہ دار حکام مسئلہ حل کرنے کی بجائے جھوٹے بیانات جاری کر رہے ہیں، اور اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی اختیار کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پولیو کا ایک اور کیس رپورٹ؛ رواں برس میں کیسز کی مجموعی تعداد 64 ہو گئی
میر افضل خان نے اعلان کیا کہ مسئلے کو فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو احتجاجی دھرنوں کا آغاز کر دیا جائے گا۔
21 نومبر کو ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں کے کانوائے پر مسلح افراد کی فائرنگ، اور بعدازاں قبائل کے مابین جھڑپوں کے باعث آمدورفت کے راستے، اور پاک افغان سرحد تاحال بند ہیں۔ پاراچنار اور ملحقہ علاقوں میں اشیائے خوردونوش اور روزمر استعمال کی دیگر اشیاء کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ علاوہ ازیں اس شدید سردی میں گیس بھی ختم ہو گئی ہے جس کی وجہ سے عوام انتہائی اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہیں۔
دوسری جانب ادویات ختم ہونے اور ہسپتال میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اموات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے؛ ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر میر حسن جان نے 29 بچوں سمیت 54 افراد کے علاج نہ ملنے سے دم توڑنے کی تصدیق کی ہے۔ ضلع کرم کے صدر مقام پاراچنار میں دکانیں خالی ہونے کے باعث تمام ہوٹل، ریسٹورنٹ اور تندور بھی بند ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
دوسری جانب رکن قومی اسمبلی حمید حسین کا کہنا تھا کہ علاج نہ ملنے کے باعث بچوں سمیت مریضوں کی اموات میں اضافہ تشویشناک ہے؛ جبکہ 70 روز سے راستوں کی بندش ذمہ داروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ مین شاہراہ پر مسافروں کے قتل پر خاموش رہنا اور اب راستے نہ کھولنا کہاں کا انصاف ہے، اور واضح کیا کہ راستے فوری طور کھول کر محفوظ نہ بنائے گئے تو احتجاجی تحریک شروع کر دیں گے۔
خیال رہے کہ کرم میں قیام امن کے حوالے سے جاری گرینڈ جرگہ میں ڈیڈلاک برقرار ہے اور بیشتر نکات پر اتفاق رائے کے باوجود کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکا ہے۔
مشیر اطلاعات کے پی بیرسٹر سیف کے مطابق کرم میں بھاری اسلحہ سرینڈر کرنے پر کچھ لوگوں کے تحفظات ہیں: "جب تک اسلحہ سرینڈر نہیں ہو گا سڑک نہیں کھولی جائے گی، گرینڈ جرگے کو دو دن کا وقت دیا ہے۔”