پولیس اختیارات کی الٹے پیر واپسی، حکومتی فیصلہ ایک ہفتہ بھی نہ ٹک سکا
محمد فہیم
خیبر پختونخوا حکومت پولیس سے اختیارات وزیر اعلی کو منتقل کرنے کا فیصلہ ایک ہفتہ بھی برقرار نہیں رکھ سکی۔ بدھ کے روز کابینہ میں منظور کئے گئے پولیس ترمیمی ایکٹ کو ایوان میں پیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اب پولیس افسران کی مشاورت سے تیار کردہ نیا ترمیمی مسودہ صوبائی کابینہ میں پیش کیاجائیگا۔
خیبر پختونخوا حکومت نے بدھ 9 اکتوبر کو پشاور میں منعقدہ کابینہ اجلاس میں پولیس ترمیمی ایکٹ کی منظوری دی تھی۔ جس کے مطابق گریڈ 18 اور اس سے اوپر کے افسران کے تبادلوں کے اختیار آئی جی سے لے کر وزیر اعلیٰ کو منتقل کردیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس کے حوالے سے عوامی شکایات کیلئے کمپلینٹ اتھارٹی سنٹرز کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا اور پولیس کی خود مختاری ختم کرتے ہوئے اسے صوبائی حکومت کے ماتحت کردیا گیا تھا۔
تاہم ایک ہفتے میں چند پولیس افسران کی دھمکیاں کام کر گئیں۔ چند افسران نے سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کو اعتماد میں لیتے ہوئے صوبائی حکومت کو نیا ترمیمی مسودہ لانے پر راضی کرلیا ہے اور نیا ترمیمی مسودہ بھی تیار کرلیا گیا ہے۔جس کے مطابق وزیر اعلی سے اختیار واپس لے لیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پولیس ایکٹ سیکشن 9 کے تحت وزیر اعلیٰ سے اختیار واپس لے لیا گیا ہے، ریجنل پولیس آفیسر اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز کے تقرر اور تبادلوں کیلئے سمری ارسال کی جائیگی۔ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل اور اندرونی پوسٹنگ ٹرانسفر کا اختیار آئی جی پولیس کو حاصل ہوگا۔ پبلک سروس کمیشن میں ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی شامل ہونگے۔
پبلک سیفٹی کمیشن کے ممبران کی تعداد 3 کی بجائے 5 اور دورانیہ 3 سے بڑھا کر4 سال کر دیا گیا ہے۔ سیفٹی کمیشن کے آزاد ممبر کو حکومت نامزد کرے گی، باقی ممبران پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اور صوبائی محتسب نامزد کریں گے۔
کمپلینٹ اتھارٹی اب سینٹر کی بجائے اب ریجن کی سطح پر ہونگی، اتھارٹی سینٹر کے 5 ممبران ہوں گے اور پولیس کا تمام آپریشن کا سسٹم پہلے کی طرح بااختیار ہوگا۔