باجوڑ، منتخب بلدیاتی چیئرمین پے درپے استعفیٰ کیوں دے رہے ہیں ؟
محمد بلال یاسر
حالیہ دنوں میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے والے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے وی سی 25 گٹکے ماموند کے چیئرمین منتظر خان نے بتایا کہ تین سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود انہیں اب تک علم نہ ہوسکا کہ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں، ان کا دفتر، فنڈز، مراعات وغیرہ دیگر ضروریات تا حال ناپید ہے۔ علاقے کی عوام بہت سارے امور میں ان کی طرف رجوع کرتی ہیں مگر معذرت کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں اس لیے کہ ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے اس لیے مجبوراً اپنے عہدے سے استعفیٰ دے رہا ہوں تاکہ ہم ارباب اختیار کو پیغام دے سکے کہ عوام کو کس طرح مایوس کیا گیا ہے۔ ان کی بلدیاتی سسٹم سے نفرت بڑھ گئی ہے آئندہ کیلئے اس میدان میں کوئی جانے کو تیار نہیں ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر تحصیل ناظم ناوگئی سب ڈویژن کی سیٹ جیتنے والے ڈاکٹر خلیل الرحمان نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں منعقدہ یہ انتخابات اس لحاظ سے منفرد تھے کہ ایک تو یہ قبائلی اضلاع کی تاریخ کے اولین بلدیاتی انتخابات تھے۔ دوسرا تحصیل چیئرمین کا حلقہ بعض علاقوں میں دو یا تین صوبائی حلقوں سے بھی بڑا تھا خاص کر انکا علاقہ نہایت وسیع تھا اور اکثر امیدواروں کو خود بھی معلوم نہ تھا کہ ہم کیا بننے اور کیا کرنے جا رہے ہیں مگر انکے علاقے میں پہلی بار ایک رنگین جمہوری اور سیاسی سرگرمی تھی جس میں سب والہانہ انداز سے شریک ہوئے مگر انکو مایوسی اور محرومی کے سوا کچھ نہ ملا۔
انہوں نے بتایا کہ میرے حلقہ انتخابات میں تقریبا ڈھائی صوبائی حلقے آتے ہیں، اس حلقے پر میں نے 22000 سے زائد ووٹ لیے اور عوام نے بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ اس عمل میں حصہ لیا مگر تین سال گزرنے کے باوجود آج تک ہماری نہ تو تنخواہ مقرر ہوسکی، نہ فنڈ اور مراعات جس کی وجہ سے اب ووٹر کے سامنے ہمیں جانے کی ہمت نہیں ہوتی۔ بدقسمتی کے ساتھ کہوں گا کہ میرے حلقہ انتخاب سے اب تک تین ویلج کونسل کے چیئرمین، وی سی چیئرمین نورشاہ چمرکنڈ، وی سی چیرمین راحت اللہ تنی ماموند، وی سی چیرمین گٹکے منتظر خان اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔ جبکہ خار سب ڈویژن سے بھی شاکر ماندل چیئرمین وی سی ماندل مستفعی ہوگئے ہیں۔
19 دسمبر 2021 کو قبائلی اضلاع میں فاٹا انضمام کے بعد پہلی بار بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ یہاں کی عوام پر امید تھی کہ مقامی حکومتوں کی تشکیل کے بعد 127 یونین کونسلوں سے تقریبا 500 عوامی نمائندے منتخب ہو کر آئیں گے۔ اس سے یقینا علاقے کی عوام کی مشکلات مزید کم ہوں گی کیونکہ وہ ایک فورم کی جگہ اب تین سطح کے مختلف فورمز پر مختلف قسم کے مسائل کے لیے اپنے منتخب نمائندوں تک رسائی حاصل کرسکیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی حکومتوں کی تشکیلات کے بعد علاقے کے لوگوں اور خصوصی طور پر نوجوانوں کے لے یہ میدان سیاسی نرسریاں ثابت ہوںگی جہاں سے مستقبل کے سیاستدان ابھر کر سامنے آئے گے۔ یہ سیاسی عمل نئے اضلاع کو قومی دھارے میں لانے کے لیے یقینا ایک بہت بڑی پیش رفت ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس سیاسی عمل میں شرکت کرنے سے نہ صرف یہاں کی عوام میں سیاسی شعور بیدار ہوگا اور سیاسی کلچر کو فروغ ملے گا بلکہ دہشت گردی کے شکار ان جنگ زدہ علاقوں میں جمہوری رویے پروان چڑھیں گے۔
مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ سب محض امیدیں ہی ثابت ہوئی اور اس کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا منتخب نمائندگان کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی مقامی حکومتوں ( بلدیاتی انتخاب ) سے مایوسی ہونے لگے اور عوامی مایوسی کے باعث بلدیاتی امیدواران اپنے کاروباری یا دیگر مصروفیات میں مصروف ہوکر اس سسٹم سے الگ ہونے لگے ہیں انہوں نے عنقریب اجتماعی استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا ہے جو کہ قبائلی عوام کی بہت بڑی محرومی ہوگی۔
اس حوالے سے سابقہ صوبائی وزیر اور موجودہ ایم پی اے انورزیب خان نے ٹی این این کو بتایا کہ انہوں نے پچھلی حکومت کے دوران کئی بار متعلقہ حکام کے ساتھ اس معاملے پر بیٹھک کی اور ان کے مسائل اور مطالبات کے حل کیلئے مستقل کوئی راہ تلاش کرے ، سابقہ وزیر اعلیٰ سے کئی بار ان کیلئے وقت لیا اور اس مسئلے کو اسبملی کے فلور پر لانے کیلئے ہماری کوششیں جاری تھی کہ بدقسمتی سے ہماری حکومت ختم ہو گئی اور ہم اپنے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قبائلی علاقوں کو مین سٹریم میں لانے کا عزم قائد عوام عمران خان کا دیرینہ خواب تھا ، عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران قبائلی اضلاع کو بندوبستی علاقوں کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں شامل کرنے کا مکمل تہیہ کر رکھا تھا جس کو اب ہم عملہ جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے اور ان کے فنڈز ، اختیارات اور مراعات کیلئے ہر متعلقہ فورم پر آواز اٹھائیں گے۔