جرائمخیبر پختونخواسٹیزن جرنلزمعوام کی آوازفیچرز اور انٹرویو

کیا مدین واقعہ کے بعد سیاحوں نے سوات کا رخ کیا ہے؟

رفیع اللہ خان

سوات گیٹ وے لنڈا کے  مقام پر تعینات تحصیل بریکوٹ کے ٹریفک انچارج اسماعیل خان نے ٹی این این کو بتایا کہ عید کی چھٹیوں میں تین لاکھ سے زائد سیاحوں نے سوات کے مختلف سیاحتی مقامات کا رخ کیا تھا البتہ سانحہ مدین کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ سیاح خوف کے مارے سوات نہیں آئینگے لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا اور مدین واقعہ کے بعد بھی بڑی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح تسلسل سے آرہے ہیں۔

اسماعیل نے بتایا کہ سوات کا چپا چپا دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے لیکن 99 فیصد سیاح سوات کی خوبصورت اور دلفریب وادی کالام، مہوڈنڈ، مدین اور شاہی باغ کے بلند و بالا پہاڑ، سرسبز و شاداب وادیاں اور گھنے جنگلات کی وجہ سے سیاحوں نے ان علاقوں میں ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے مدین واقعہ پیش آیا تھا باقی اگر پورے سوات کی بات کی جائے تو مکمل امن و امان ہے اور سیاح بلا خوف و خطر گھوم پھر رہے ہیں۔ جگہ جگہ پولیس اپنی ڈیوٹیاں سر انجام دے رہی ہیں سکیورٹی کا کوئی مسلہ نہیں ہے۔

اسماعیل نے بتایا کہ ملک بھر میں اس وقت گرمی کی شدید لہر چل رہی اور ہر سال کی طرح رواں سال بھی گرمی کے ستائے سیاح 15 اگست تک سوات کے مختلف سیاحتی مقامات میں ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چونکہ میں سوات گیٹ وئے پر ڈیوٹی سر انجام دے رہا ہو اس لئے بخوبی اندازہ ہے کہ پچھلے سال کی نسبت رواں سال زیادہ سیاح آرہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کسی ایک بھی سیاح نے ان سے مدین واقعہ کے بارے میں نہیں پوچھا ہے وہ خوشی سے یہاں آتے ہیں اور اپنے لمحات کو یادگار بنا کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔

انہوں نے سیاحوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ سوات پرامن علاقہ اور یہاں کے باسی مہمان نواز اور محبت کرنے والے ہیں اس لئے سیاح بلا خوف و خطر کے آسکتے ہیں یہاں کوئی مسلہ نہیں ہے پولیس 24 گھنٹے چوکنا ہے۔

سوات کے سابق ضلعی ناظم اور سابق نگران وزیر محمد علی شاہ نے ٹی این این کو بتایا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مدین جیسا واقعہ جہاں پر بھی پیش آتا وہاں اس کے برے اثرات ضرور پڑتے۔ میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ مدین واقعہ کے بعد برے اثرات مرتب ہونے کے باوجود عید میں لاکھوں سیاحوں نے یہاں کا رخ کیا اور پر امن طریقے سے اپنے علاقوں کو واپس لوٹ گئے لیکن یہ ایک بدقسمت واقعہ پیش آیا جس نے یہاں کی سیاحت پر بدنما داغ چھوڑا ہے۔

ایسے واقعات رونماء ہونے کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں مختلف سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں تاہم سوات کے خلاف سازش کے گمان کو مسترد کرتا ہو اس بات سے ایک فیصد بھی اتفاق نہیں کرتا کہ یہ سوات کے خلاف سازش ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ میں سوات کے لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہو سر تور فقیر سے لیکر صوفی محمد اور فضل اللہ تک سب تاریخ کے تلخ حقائق ہے۔ محمد علی شاہ نے بتایا کہ ہر معاشرے میں مختلف الخیال اور جذبات والے لوگ پائے جاتے ہیں اس واقعہ میں بھی مقامی لوگ شامل تھے کوئی پرایا شخص کیسے میرے گاوں میں اعلانات کرکے لوگوں کو نکال سکتا ہے۔

اب زیادہ تر لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سوات کی سیاحت کے خلاف سازش ہے تو میں اس سازش والے لفظ سے اتفاق نہیں کرتا۔

اب مری والوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ ہماری سیاحت کے خلاف سازش کریں وہاں تو اتنے سیاح جاتے ہیں کہ پھر انتظامیہ لوگوں کے داخلے پر پابندی لگا کر روڈ بند کردیتی ہیں اس لئے یہ تمام مفروضے ہیں۔

شاہ نے کہا کہ ہنزہ میں کیا ہے صرف وہاں کے لوگ امن پسند اور آزاد خیال ہے اس لئے پوری دنیا سے لوگ ہنزہ دیکھنے کے لئے جاتے ہیں، ساح اس لئے ہنزہ کا رخ کرتے ہیں کہ وہاں سیاحوں کے لئے بہترین ماحول بنا ہوا ہے یہاں ماحول نہیں بن رہا یہ ساری باتیں ہم خود سے بنا رہے ہیں۔

سابق نگران صوبائی وزیر نے کہا کہ سیاحت ایک ایسا شعبہ ہے کہ جہاں قدرتی خوبصورتی کے ساتھ امن و امان کی تسلی بخش صورتحال ہو تو سیاح وہاں جانے کو ترجیح دیتے ہیں اب وزیرستان بھی سوات کی طرح خوبصورت علاقہ ہے لیکن وہاں امن و امان کی غیر تسلی بخش صورتحال کی وجہ سے سیاح وہاں جانے سے کتراتے ہے کیونکہ ساح اپنے ذہنی سکون اور خوشی کے خاطر ان علاقوں میں جانا پسند کرتے ہیں جہاں وہ اپنے آپ کو فیلمی سمیت محفوظ سمجھتے ہو۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جون، جولائی اور اگست کے مہینے میں گرمی کے ستائے سیاح سوات میں ڈیرے ڈال لیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے مدین واقعہ کے بعد یہ مسئلہ سوشل میڈیا پر اتنا وائرل ہوا جبکہ سوات کی نفرت میں بھی کافی لوگوں نے اس مسئلے کو خوب اچھالا اور یہاں تک کہ امریکہ تک اس پر بات ہوئی۔

سوات پولیس کے ترجمان کے مطابق پولیس نے مدین واقعہ میں اہم پیش رفت کرتے ہوئے واقعہ میں ملوث تین اہم ملزمان یاسر، غفران اور قاری انعام الرحمٰن سمیت اب تک 30 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
تمام ملزمان کو انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا، عدالت نے ملزمان کو دس روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔

پولیس ترجمان کے مطابق واقعے میں ملوث دیگر نامزد ملزمان کی گرفتاری کی کوششیں جاری ہے اور عدم گرفتار ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کر لیا جائیگا۔

ذرائع نے بتایا کہ پولیس نے سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز اور تھانہ مدین سے سرخ پل تک تمام سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی ہے جس کی مدد سے دیگر ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے گا۔

پولیس ذرائع نے بتایا ہے کہ اس وقت پچاس سے زائد افراد قانون کے شکنجے میں ہے تاہم اس کیس میں مختلف ادراے کام کررہے ہے اس لئے پولیس کے پاس 30 اور باقی ملزمان دیگر ادروں کے ساتھ تحویل میں ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں تحریک لبیک پاکستان ملاکنڈ ڈویثرن کے جنرل سیکرٹری مولانا محمد نوارانی نے اپنے دیگر ساتھیوں سمیت پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ مدین واقعہ انتظامیہ کی غفلت کا نتیجہ ہے پولیس بے گناہ افراد کو گرفتار کرکے مزید اشتعال نہ پھیلائے۔ قرآن پاک کی بے حرمتی کا واقعہ رونماء ہو چکا ہے جس کے بعد عوام نے خود ملزم کو پولیس کے حوالے کیا لیکن انتظامیہ اپنی ذمہ داری پوری نہ کر سکی جس کے بعد عوام اشتعال میں آگئی۔

یاد رہے کہ 20 جون کو مدین میں مبینہ طور پر توہین قرآن پاک کے متکب شخص کو قتل کرنے کے بعد جلایا تھا اور لاش کو سڑک پر گھسیٹا تھا۔ مدین پولیس نے واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی جس میں 49 معلوم اور 2000/2500 ملزمان نامزد کئے گئے ہیں۔

جن کے خلاف زیر دفعہ 302، 324، 353، 341، 427، 436، 186، 148، 149، 7ATA/PPC کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے تاہم پولیس زرائع نے بتایا ہے کہ تفتیش مکمل ہونے کے بعد اس میں لاش کی بے حرمتی کے دفعات بھی درج کئے جانے کا امکان ہے۔

پولیس زرائع نے بتایا ہے کہ یہ چھوٹا واقعہ نہیں اس کی تفتیش میں مزید دن لگ سکتے ہیں جس کے بعد ہی اصل حقائق عوام کے سامنے آئینگے۔

Show More

Rafiullah Khan

رفیع اللہ خان نے جرنلزم/میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹڈیز میں ماسٹر کیا ہے، "جواب تلاش کرنا، کہانیاں بانٹنا۔" حقائق سے پردہ اٹھانا اور پھر اسے بیانیہ کی شکل دینا ان کا خاصہ ہے۔
Back to top button