چارسدہ ہسپتال میں دوبارہ لاکھوں روپے کے غبن کا انکشاف
رفاقت اللہ رزڑوال
ضلع چارسدہ کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال سے 75 لاکھ 81 روپے غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ہسپتال کے فارمیسی ٹیکنیشن نے رقم چوری ہونے کا بہانہ بنا دیا، میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے ٹیکنیشن کے خلاف مقدمہ درج کرنے کیلئے خط ارسال کرکے ڈی جی ہیلتھ کو بھی واقعے سے آگاہ کیا۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چارسدہ کو پچھلے تین ماہ میں او پی ڈی سے ہونے والی آمدنی غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق ہسپتال او پی ڈی میں پرچیوں، لیبارٹری اور ایکسرے وغیرہ کی مد میں مارچ، اپریل اور مئی کے مہینوں میں حاصل ہونے والی آمدنی 75 لاکھ 81 روپے جمع ہوئی تھی۔ رقم کو اکاونٹ میں جمع کرنے کی بجائے سابق ایم ایس ڈاکٹر شعیب نے فارمیسی ٹیکنیشن گل شاد کو کیش کی صورت میں اپنے پاس امانت کے طورپر رکھنے کا کہا تھا۔
اس سے قبل بھی ہسپتال میں 33 لاکھ روپے کا غبن ہوا ہے اور تحقیقات کے نتیجے میں سپرنٹنڈنٹ اور جونئیر کلرک کے ملوث ہونے کا کیس ثابت ہوا ہے۔
سابق ایم ایس کے تبادلے کے بعد جب نئے ایم ایس ڈاکٹر جہانگیر نے گزشتہ ہفتے کو چارج سنبھال لیا تو انہوں نے ٹیکنیشن کو رقم اکاؤنٹ میں جمع کرنے کی ہدایات کی تو فارمیسی ٹیکنیشن نے موقف اختیار کیا کہ رقم ہسپتال سے چوری ہوئئ ہے مگر مبینہ طور پر چوری شدہ رقم انہوں نے حکام کے نوٹس میں نہیں لایا تھا۔
واقعہ سامنے آنے کے فوری بعد ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے میڈیکل سپرٹنڈنٹ نے ڈی جی ہیلتھ کو 14 جون کو لکھے گئے خط میں بتایا کہ مارچ، اپریل اور مئی کے تین ماہ میں مریضوں کے معائنے کی پرچی اور مختلف لیبارٹری ٹسٹس کی فیس کی مد میں جمع شدہ رقم مذکورہ فارمیسی ٹیکنیشن کے پاس موجود نہیں ہے۔
ڈی جی ہیلتھ کو لکھے گئے خط میں سابق ایم ایس ڈاکٹر شعیب اور ڈی ایم ایس ڈاکٹر جاوید ستار کا نام لے کر کہا گیا ہے کہ سابق ایم ایس اور ڈی ایم ایس نے فارمیسی ٹیکنیشن کو ہسپتال کے روزمرہ ریونیو کو اپنے پاس رکھنے کی زبانی ہدایات جاری کئے تھے جس کے پاس اب پچھلے تین ماہ کی جمع شدہ رقم موجود نہیں۔
محکمہ صحت کے ریکارڈ کے مطابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل خیبرپختونخوا ڈاکٹر عابد حسین نے پہلے سے اس معاملے میں انکوائری کرتے ہوئے ہسپتال کے سابق سپرنٹنڈنٹ ثناء اللہ اور جونئیر کلرک اشتیاق پر غبن کے 33 لاکھ روپے ثابت کر دیئے ہیں جبکہ جونئیر کلرک تاحال اپنے عہدے پر براجمان ہے اور غبن کی رقم ان کی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے۔
ہسپتال کے سابق ڈی ایم ایس ڈاکٹر جاوید ستار نے ٹی این این کو بتایا کہ خط میں ان کا نام لیا گیا مگر ان کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ افسر کے ہوتے ہوئے ماتحت کوئی آرڈر یا ہدایات جاری نہیں کرسکتے ہیں۔
جاوید ستار نے واقعے کی انکوائری کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں خوشی ہوگی کہ "دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی” ہوجائے کیونکہ یہ رقم قوم کی امانت ہے اور اس میں غبن کرنے والوں کے خلاف محکمانہ کاروائی ہونی چاہئے۔
ڈاکٹر جاوید ستار نے بتایا کہ ہسپتال کی آؐمدن میں 10 فیصد رقم سرکاری خزانے، 60 فیصد ہسپتال کیلئے، 25 فیصد ڈاکٹر شئیرز، 3 فیصد ایم این ڈار اور 2 فیصد ایڈوانس شئیرز فارمولے کے تحت تقسیم ہوتے ہیں مگر یہ بہانہ بنانا کہ رقم کہیں گُم ہوگئی ہے اس پر انکوائری ہونی چاہئے۔
دوسری جانب ہسپتال کے میڈیکل سپرٹنڈنٹ ڈاکٹر جہانگیر کے مطابق واقعہ سامنے آنے کے فوری بعد انہوں نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کو بھی واقعہ کا مقدمہ درج کرنے کے لئے تحریری طور پر لکھا ہے تاہم پولیس کی جانب سے تاحال واقعہ کا مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے جب ٹی این این نے فارمیسی ٹیکنیشن گل شاد سے رابطہ کیا تو انہوں نے تفصیلی جواب دینے کی بجائے بعد میں موقف دینے کا کہا مگر ایک دن گزرنےکے بعد بھی انہوں نے کوئی موقف نہیں دیا۔