خیبر پختونخواعوام کی آواز

سپریم کورٹ کا خیبرپختونخوا کے تمام تھانوں میں خواتین تفتیشی آفیسر مقرر کا حکم

محمد طیب

سپریم کورٹ آف پاکستان نے خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع کے تھانوں میں خواتین تفتیشی آفیسر مقرر کرنے کے احکامات جاری کئے تاکہ وہاں غیرت کے نام پرہونے والے قتل مقاتلے کے مقدمات کی خواتین آفیسرتفتیش کرسکیں.

عدالت عظمی کے جسٹس قاضی فائزعیسی نے یہ احکامات گذشتہ روز استغفراللہ ایڈوکیٹ کی وساطت سے دائر ملزم جناب عالی ساکن صوابی کی ضمانت پر رہائی کی درخواست کی سماعت کے دوران جاری کئے.

اس موقع پر فاضل جسٹس نے ڈی آئی جی مردان کو طلب کیااورانہیں تھانوں میں خواتین تفتیشی آفیسرمقرر کرنے کی ہدایات جاری کیں جبکہ اس حوالے سے خیبرپختونخوا حکومت کو بھی احکامات جاری کئے گئے.

واضح رہے کہ ملزم جناب عالی ساکن صوابی پرالزام ہے کہ اس نے بیٹے کی مدد سے اپنی بہو ہما بی بی کوقتل کردیاتھا. عدالت عالیہ سے درخواست ضمانت خارج ہونے پرملزم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائرکی اورفاضل بنچ نے دلائل مکمل ہونے پرملزم کوضمانت پررہا کرنے کے احکامات جاری کردئیے.

اس حوالے سے صحافی اور مختلف قومی اخبارات میں بحثیت کرائم رپورٹر خدمات سرانجام دینے والے محمد فیاض کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے خیبرپختونخواکے پولیس سٹیشنوں میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی تفتیش کیلئے خواتین پولیس افسران کی تعیناتیوں کا فیصلہ خوش آئند ہے.اگر دیکھاجائے تو گزشتہ کئی سالوں کے دوران جہاں دوسرے جرائم کی شرح میں غیرمعمولی اضافہ ہواہے وہاں پر صوبے میں غیرت کے نام پرلڑکیوں اورخواتین کوبے دردی سے موت کے گھاٹ اتارنے کے واقعات بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں.

2021 کے دوران پشاورمیں 13 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیاگیا تاہم ابھی تک اس حوالے سے کسی بھی کیس سے متعلق حقائق سامنے نہیں آسکے ہیں کہ آیا قتل ہونے والی لڑکی یا خاتون واقعی کسی ایسے فعل میں ملوث پائی گئی تھی جنہیں شوہر،بھائی یادوسرے عزیز واقارب کے ہاتھوں مار کر غیرت کا نا م دیدیاہے شاید زیادہ ترقتل ہونے والی خواتین بے گناہ ہو اس کی تفتیش کرنا پولیس کی ذمہ داری بنتی ہے اگر ایسے میں خواتین تفتیشی افسران ہوں گی تو زیادہ تر کیسوں حل ہونے کی توقع ہوگی بعض اوقات گھریلو ناچاقی اور دوسرے مسائل کے نتیجے میں بے گناہ خواتین اورلڑکوں کو قتل کردیاجاتاہے اوربعد میں اسے غیرت کانام دیدیاجاتاہے.

فیاض کے مطابق تھانوں کی سطح پر خواتین تفتیشی افسران کی تعیناتیوں سے نہ صرف ایسے نام نہاد کیسوں کی الجھی ہوئی گتھی سلجھنے میں مدد مل سکے گی بلکہ جن والدین کی بیٹیاں غیرت کے نام پر قتل کردی جاتی ہیں اور اصل کہانی کچھ اور ہوتی ہے ہمارے ہاں جائیداد کے لئے بھی بعض اوقات لڑکیوں اور خواتین پر تہمت لگا کر موت کے گھاٹ اتاردیاجاتاہے اورحقائق چھپانے کیلئے اسے غیرت کارنگ دیدیاجاتاہے تو ایسے درجنوں واقعات کے حقائق سامنے لانابھی ضروری ہے جس سے نہ صرف ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہوسکے گی بلکہ ملوث افراد کو عبرت ناک سزائیں بھی دی جاسکیں گے تب جاکر ایسے واقعات رک سکیں گے۔

دوسری جانب خواتین کے حقوق کے کام کرنے والی سماجی کارکن خشنود ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ پولیس تھانوں میں خواتین تفتیشی افسران مقرر کرنے کے حوالے سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک اچھا فیصلہ ہے تھانوں میں خواتین تفتیشی افیسر مقرر ہونے سے خواتین کے خلاف مختلف جرائم میں کمی آئیگی۔

ان کا کہنا تھا صوبائی حکومت فوری طور پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کریں اور تمام تھانوں خصوصی طور پر دور افتادہ، پسماندہ علاقوں اور ضم اضلاع میں تفتیشی افسر تعینات کریں تاکہ خواتین کو فوری طور پر سہولت میسر ہو۔

انہوں نے کہا کہ خواتین آفیسر تعینات ہونے سے خواتین کو اپنے مسائل اور بات کرنے میں آسانی ہوگی کیونکہ ایک خاتون ہی خاتون کی بات، احساسات اور جذبات کو سمجھ سکتی ہے اور ایک عورت ہی اپنی بات عورت کے سامنے کھل کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ خواتین افیسر کی تعیناتی سے پولیس ڈیپارمنٹ کو بھی خواتین سے متعلق کیسز کے اندر تفتیش کرنے میں اسانی ہو گی۔

ان کا مزید کہناتھا کہ ہم سماجی وکرز کا تو مطالبہ ہے کہ خواتین کے الگ تھانے ہر علاقے میں بنائے جائے تاکہ خواتین کو مسائل کا سامنا نہ ہو جبکہ خاتون افسر کی تعیناتی سے خواتین کے خلاف مختلف جرائم میں کمی بھی آئیگی۔

پشاور ہائی کورٹ میں وکالت کرنے والے فوجداری مقدمات کے ماہر وکیل فرہاد اللہ آفریدی کا کہنا ہے کہ تھانوں میں خواتین تفتیشی افسران کی تعیناتی سے منصفانہ تفتیش سامنے آئیگی اور خواتین کے خلاف جرائم کی ہر پہلو سے تفتیش ممکن ہوسکے گی۔

پولیس کے 2002 اور 2017 کے قوانین میں بھی خواتین پولس اہلکاروں کی رول واضح ہے اس لیے یہ یہ ایک ضروری اقدام ہے کہ اگر حکومت تمام تھانوں میں کے اندر خواتین تفتیشی افسران تعینات کریں۔

ان کا کہنا ہے کہ شفاف اور غیر جانبدارانہ تفتیش عدالتوں میں اصل مجرم کو سزاء دلوا سکتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ غیرت کے نام پر یا دوسری وجوہات کے نام پر خواتین کے خلاف تشدد کے مقدمات کے تفتیش میں خواتین تفتیشی افسران کو شامل کرنا چاہیے کیونکہ ایسے مقدمات میں خواتین پولیس اہلکاروں کی عدم شرکت کی وجہ سے تفتیش نامکمل ہوتی ہے جس کا فائدہ مجرم کو ملتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں زیادہ تر مقدمات میں مجرم کا بری ہونا بھی ناقص تفتیش کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ ناقص تفتیش کا فائد اکثر مجرم کو ملتا ہے اور وہ عدالتوں سے آسانی سے بری ہوجاتے ہیں اس لیے خواتین کے خلاف جسمانی اور جنسی تشدد کے مقدمات میں خاتون تفتیشی افسر کا ہونا اب وقت کی اہم ضرورت ہے سپریم کورٹ کے اس حکم کو وکلاء سراہتے ہیں اور اسے خوش آئیندہ قرار دیتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button