سیاستکالم

آٹا پنجاب کی قیمت پر: کیا شہباز شریف بھی نو بال پر آؤٹ ہو جائیں گے؟

ماخام خٹک

گزشتہ ہفتے ضلع شانگلہ میں ملک کے وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بڑے جلسہ عام میں ایک بہت بڑا اعلان کیا اور بڑے کھلے انداز میں یہ واضح کیا کہ صوبہ پختونخوا میں بھی آٹے کی وہی قیمت ہو گی جو قیمت آٹے کی صوبہ پنجاب میں مقرر ہے۔

بنیادی طور پر آٹا بھی ایک سیاسی ایشو ہے اور اس ایشو کو وزیر اعظم شہباز شریف نے نظر میں رکھا ہوا تھا اور موقع محل کو بھانپ کر اس کو ایڈرس کیا بلکہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا کیونکہ عرصہ دراز سے آٹے کا یہ ایشو سکینڈل کی حد تک سماجی و سیاسی سطح پر پورے صوبے میں ابھر کر آ جاتا تھا اور اس ایشو کا براہ راست تعلق پنجاب سے جڑ جاتا تھا اور خیبر پختونخوا کے عوام میں یہ سیاسی محرومی سر اٹھاتی کہ پنجاب کی طرف سے آٹے کی سپلائی روک دی گئی ہے۔

چونکہ موجودہ وزیر اعظم دو بار پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے ہیں اور ان ہی کی حکومت میں آٹے کے یہ سکینڈلز سامنے آتے رہے ہیں اور ان ہی کی جانب سے سیاسی مداخلت کاری بھی ماضی میں سکینڈلائزڈ ہوئی ہے تو ان کے اس اعلان سے کماحقہ نا ہو خیبر پختونخوا کے عوام کی کسی حد تک تشفی و تسلی ہوئی ہو گی کیونکہ اب اگر ایک طرف وہ خود ملک کے وزیر اعظم ہیں تو دوسری جانب ان کے فرزند ارجمند اسی پنجاب اور ملک کے ایک بہت بڑے صوبے کے وزیر اعلی بھی ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس اعلان کو وہ کس طرح عملی کراتے ہیں کیونکہ خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت نہیں اور پنجاب براہ راست دوسرے صوبے میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ اب شہباز شریف نے بھی جو اعلان کیا ہے وہ ایک خاص تبدیلی سے مشروط ہے یعنی اگر خیبر پختونخوا میں صوبہ پنجاب کے برابر آٹے کی قیمتیں نہیں ہوئیں تو وہ اپنے کپڑے بیچ دیں گے لیکن ان قیمتوں کو بحال رکھیں گے۔

اب یہ بات تبدیلی سے متعلقہ ہے اور ہمارے ملک میں گزشتہ تین چار سالوں سے تبدیلی کا ریکارڈ کچھ خوش کن نہیں رہا ہے اور اگر تبدیلی آئی بھی ہے اور پھر الٹے پاؤں اور پھر سیدھے پاؤں ہونے کی اگر کوشش بھی کی ہے تو وہ لاحاصل بلکہ ادھر پھنس کر ہی رہ گئی جس کی مثال گزشتہ عمران خان کی حکومت ہے۔ وہ تبدیلی ہی کے نعرے سے نہ صرف پروان چڑھی تھی بلکہ پروان چڑھتے چڑھتے اپنے احتتام کی جانب بھی بڑی تیزی سے آئی۔ تبدیلی تو بظاہر مثبت انداز میں کسی کو نصیب نہیں ہوئی تاہم لوگوں کو اس تبدیلی کے بارے میں لطیفے، ٹوٹکے، اور میمز بے انتہا ملیں، محظوظ ہونے کے لئے۔

اب شہباز شریف نے یہ جملہ تو طنزاً بولا ہے کہ وہ اپنے کپڑے بیچ دیں گے لیکن خیبر پختونخوا میں آٹے کی قیمتوں کو پنجاب کے برابر رکھیں گے لیکن اصلاً یہ ممکن نہیں کیونکہ شہباز شریف کے کپڑوں کی قیمت تو اتنی ہو نہیں سکتی کہ وہ یہ کفارہ ادا کر سکے لیکن یہ ان کے سیاسی کفارے کی ادائیگی کا سیاسی نعرہ ہے جو وہ اپنے ماضی کو پاک کرنا چاہ رہے ہیں۔ اور وہ کسی حد تک یہ سیاسی پروپیگنٖڈا اپنے سر سے اتار چکے اور لوگ اب ان سے امید باندھ چکے ہیں۔

شانگلہ میں شہباز شریف نے نہ صرف آٹے سے متعلق اعلان کیا بلکہ شانگلہ میں ایک میڈیکل یعنی شانگلہ میڈیکل کالج کا بھی اعلان کیا جو ہوتے ہی قدرے متنازعہ ہوا اور وہاں کے عوام نے اس کالج کے نام پر تجاویز دیں اور زیادہ آوازیں حافظ الپوری میڈیکل کالج کے نام سے آئیں جو کہ اچھی تجویز ہے، حافظ الپوری پشتو کلاسک ادب کا، ایک ممتاز اور معروف نام ہے لیکن یہ اگر عام کوئی کالج یا یونیورسٹی بن رہا یا بن رہی ہو تو اس کے لئے مناسب ہو گا نہ کہ کسی میڈیکل کالج یا یونیورسٹی کے لئے حافظ الپوری کا نام مناسب ہو گا۔ یہ شانگلہ کے کسی میڈیکل شعبے سے متعلقہ کسی ایسی شخصیت سے منسوب ہو سکتا ہے جن کے میڈیکل شعبے کے لئے انگنت خدمات ہوں اور میڈیکل سے متعلقہ لوگ بھی ان پر متفق ہوں۔

اور یقیناً شانگلہ اتنا بڑا ضلع ہے۔ اس میں اگر میڈیکل کالج بن سکتا ہے اور میڈیکل کی تعلیم کے لئے لیکچرار اور پروفیسر میسر ہو سکتے ہیں تو اس شعبے کے گراں قدر خدمات کے حامل افراد بھی ہوں گے۔ ان میں سے کسی کا نام تجویز کیا جائے اور ان ہی کے نام سے یہ کالج منسوب کیا جائے تو یہ بہتر تجویز ہو سکتی ہے۔

ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ متعدد کالجز اور یونیورسٹیوں پر غیرمتعلقہ لوگوں کے نام رکھے گئے ہیں لیکن غلط کام کبھی بھی مثال نہیں بن سکتے بلکہ اس سے سبق حاصل کیا جا سکتا ہے اور ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف! اگر شہباز شریف یہ دو کام کر جاتے ہیں؛ ایک آٹے کے بحران پر قابو پا لیں اور آٹے سے متعلق پالیسی خیبر پختونخوا اور پنجاب کے ایک پیج پر لائیں تو یہ ان کی بہت بڑی سیاسی اچیومنٹ ہو گی۔ اس سے شہباز شریف پر پنجاب کے وزیر اعلی ہونے کی وجہ سے جو سابقہ سیاسی سٹیگما تھا وہ صاف ہو جائے گا بلکہ وہ مسلم لیگ ن کو ایک ملکی اور عوامی پارٹی کے روپ میں خیبرپختونخوا میں کسی حد تک منوانے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔ اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے لئے آنے والے الیکشن میں قدرے آسانی اور کچھ سیٹس جو وہ جہاں جہاں سے نکالتے رہے ہیں وہاں وہاں آسانیاں ہوتی جائیں گی۔ ان میں شانگلہ ہی سے امیر مقام سرفہرست ہیں۔

دوسرے اگر کالج پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے تو نہ صرف میڈیکل کے شعبے میں لوگ آگے بڑھیں گے بلکہ ان لوگوں کا خود بخود رجحان سیاسی طور پر مسلم لیگ ن کی جانب مائل رہے گا اور ان کا یہ سیاسی احسان مدتوں یاد رکھیں گے۔

اب آتے ہیں سیاسی اعلانات کی جانب! کیا ان اعلانات پر تکیہ کیا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں لیکن یہ خوش کن ضرور ہوتے ہیں اور تب تک ان سیاسی اعلانات پر سیاسی یقین نہیں کرنا چاہئے جب تک یہ اعلانات عملی جامہ نہ پہن چکے ہوں اور جب تک اس کے ثمرات عوام تک براہ راست نہ پہچ چکے ہوں اور عوام اس سے دن رات ہر پل سردی ہو یا گرمی جاڑا ہو یا بہار اس سے عوامی امنگوں کے مطابق بلاتفریق فوائد حاصل نہ کرتے ہوں۔ لیکن پھر بھی یہ جمہوری ملک ہے اور یہاں فیصلے سیاسی اور جمہوری انداز سے ہوتے ہیں جو دیر سویر کے ساتھ ہوتے تو ہیں پر ہو جاتے ہیں اور شانگلہ کے عوام کو اچھی امید رکھنی چاہیے۔ یہ صرف شانگلہ نہیں پورے صوبے بلکہ سارے ملک کے لئے نیک شگون ہے۔

اقبال شاہ ایڈووکیٹ پیشے کے لحاظ سے وکیل اور سندھ ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ شعر و ادب سے بھی علاقہ ہے اور ماخام خٹک کے قلمی نام سے شاعری کے علاوہ مختلف اخبارات و رسائل کے لئے بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button