خیبر پختونخوالائف سٹائلماحولیات

ہزارہ کے جنگلی سور کا نیا مسکن ملاکنڈ ڈویژن، ہجرت کی وجہ کیا ہے؟

انور زیب

ضلع بونیر میں جنگلی سور کی بڑھتی ہوئی آبادی مقامی کسانوں کیلئے درد سر بن گئی۔ گزشتہ دو سال میں گندم، مکئی اور دیگر فصلوں کا بڑا حصہ جنگلی سوروں کی وجہ سے ضائع ہو رہا ہے۔

مکئی کی فصل کو جنگلی سور سے محفوظ رکھنے کیلئے مقامی لوگ رات کے وقت ٹولیوں کی شکل میں باقاعدہ ڈیوٹی دیتے ہیں۔ ان کے مطابق جنگلی سور "کھاتا کم اور ضائع زیادہ کر رہا ہے۔” مکئی کی فصل تیار ہو چکی ہے اور جب سوروں کا ایک ٹولہ کسی کھیت میں پہنچ جاتا ہے تو پوری فصل تباہ کر کے ہی چلا جاتا ہے۔

کسانوں کے مطابق سور صرف مکئی کے خوشے کھانے نہیں آتے بلکہ اپنے مضبوط کھروں سے زمین کھود کر فصل کو اکھاڑ پھینک دیتے ہیں۔ مقامی آبادی کے ساتھ اسلحہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ مسئلہ روز بروز شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ کہیں پر لوگ سوروں کو پکڑ کر مارنے کیلئے روایتی طریقے (دام) استعمال کرتے ہیں تو کہیں پر بارہ بور بندوق سے فائرنگ کر کے انہیں بھگا دیا جاتا ہے۔ بعض کسانوں نے رات کے وقت کھیتوں میں روشنی کا اہتمام کیا ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ سور روشنی میں کھیتوں کا رخ نہیں کرتے۔

منسٹری آف کلائمیٹ چینج کے وائلڈ لائف کنزرویٹر محمد شفیق کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں صرف بونیر میں نہیں بلکہ ملک کے کئی علاقوں میں جنگی سور کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ایک سبزی خور جانور ہے اور فصلوں کو نقصان پہنچا رہا ہے، زیادہ بچے پیدا کرنے والا جانور ہے اس لئے اگر کنٹرول کرنے کا معقول نظام نہ ہو تو جلدی پورے علاقے میں پھیل جاتے ہیں۔

شفیق کے مطابق جنگلی سور کو مارنے پر کوئی پابندی نہیں، جس طرح فصلوں کیلئے نقصان دہ کیڑے مکوڑے مارے جاتے ہیں اس طرح یہ بھی ہے، کسان جہاں اس کو دیکھ لے اسے مار سکتے ہیں لیکن عام بندوق سے مارنا مشکل ہوتا ہے۔ ان کے مطابق جنگلی سور کا چمڑا کافی سخت ہوتا ہے اور اس پر چربی بھی زیادہ ہوتی ہے اس لئے اس کو ختم کرنا آسان کام نہیں۔

ہری پور یونیورسٹی کے شعبہ جنگلات و جنگلی حیات نے 2018 میں ہزار ڈویژن میں جنگلی سور کی بڑھتی ہوئی آبادی پر تحقیق کی۔ تحقیق میں شامل پانچ گاؤں سے جب اعداد وشمار اکٹھا کئے گئے تو پتہ چلا کہ ان مخصوص علاقوں میں جنگلی سوروں کی وجہ سے 53 فیصد مکئی کی فصل، 34 فیصد گندم جبکہ 13 فیصد مٹر کی فصل تباہ ہو گئی تھی۔

ماحولیات پر کام کرنے والے ایک ادارے تھرڈ پول کو ایک انٹرویو میں ماہر ماحولیات ڈاکٹر ساجدہ نورین نے کہا کہ ہزارہ ڈویژن میں جنگلی سؤروں کا اپنا ٹھکانہ گرم مرطوب سے پہاڑی علاقوں میں منتقل کرنے کے پیچھے ایک وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے۔

نورین کے مطابق پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے جو جنگلی سوروں کیلئے ایک محفوظ ٹھکانہ ثابت ہو رہا ہے۔ مناسب اور محفوظ ماحول کی وجہ سے جلد ہی پورے ہزارہ ڈویژن میں پھیل گئے ہیں۔

جنگلی سور ممالیہ جانور ہے۔ یہ تقریباً چار ماہ میں بچے دیتے ہیں اور ایک وقت میں پانچ سے سات بچھے جنم لیتے ہیں۔ ایک تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اگر ماحول سازگار ہو تو دس تک بچے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی آبادی میں جلدی اضافہ ہوجاتا ہے۔

بونیر میں تعینات ڈویژن وائلڈ لائف آفیسر خورشید عباسی کا کہنا ہے کہ سور کی آبادی کے بارے میں انہیں علم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگلی سور کوئی پروٹیکٹیو جانور نہیں اس لئے کسان اسے خود بھی مار سکتے ہیں اور ہمیں بھی بتا سکتے ہیں۔

وزارت ماحولیات کے کنزرویٹر شفیق کا کہنا کہ بینظیر کے دور حکومت میں سوروں کو شکار کر کے مغربی ممالک برآمد کرنے کی ایک تجویذ سامنے آئی تھی تاہم مذہبی طبقے کی شدید تنقید کے باعث اس منصوبے پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button