خیبر پختونخواصحتفیچرز اور انٹرویو

اگر دادا شوگر کا مریض ہے تو پوتے کو بھی شوگر مرض لاحق ہوسکتا ہے، ڈاکٹر ابرار

نشاء عارف

‘میری 9 سالہ بیٹی کی صحت دن بدن خراب ہورہی تھی اور ایک دن جب حالت کافی خراب ہوکر اس نے الٹی شروع کردی  اور ہم نے  اسے لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کردیا جہاں ہمیں ڈاکٹروں نے بتایا کہ آپ کی بچی کو شوگر ہے۔’

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے پشاور سے تعلق رکھنے  والے ناصر نے بتایا کہ جب پہلی بار پتہ چلا کہ بچی کو شوگر ہے تو ہمارے پیروں تلے زمین نکل گئی اور ہم سب کافی پریشان ہوگئے۔ تاہم ایل آر ایچ انسولین بینک ڈیٹا کے مطابق  اس وقت 2 سو سے زائد بچے انسولین ویکیسن کے لئے رجسٹرڈ کئے گئے ہیں جبکہ اس کے علاوہ بھی ہر روز لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں 3 سے 4 تک شوگر کے نئی بچوں کی کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔

پشاور کے علاقے بڈھ بیر سے تعلق رکھنے والے رحیم خان اور اسکی بیوی بھی گزشتہ کئی دنوں سے پریشان ہے کیونکہ انکا 10سالہ بیٹا بلال بھی شوگر کا شکار ہوا ہے۔

رحیم خان کا کہنا ہے کہ ‘ بلال کی ماں کافی پریشان ہے کیونکہ ان کا بیٹا چھوٹی سی عمر میں دیگر بچوں سے الگ ہوجائے گا، نہ ہی وہ کھیل کھود میں حصہ لے سکے گا اور نہ ہی وہ دیگر بچوں کی طرح کھا پی سکے گا اور بچن سے ہی پزہیز کا عادی بن جائے گا۔’

کیا شوگر کے بچے واقعی خصوصی  افراد میں شامل ہوتے ہیں ؟

لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں ماہر ڈاکٹر اسسٹنٹ پروفیسر ابرار احمد کے مطابق ذیا بیطس (شوگر) کے 3 سے لیکر 5 اقسام ہوتے ہیں جس میں ٹائپ ون بچوں کو نشانہ بناتی ہے ، اسکا جو بنیادی مکینزم  ہے وہ یہ ہے کہ انسانی جسم ہی اس کے خلاف مدافعت شروع کرتا ہے جبکہ سب سے عام شوگر ٹائپ ٹو ہے اور پورے پاکستان میں ہر 5 میں سے ایک بندہ ٹائپ ٹو شوگر کا مریض ہے۔ ٹائپ تھری وہ قسم ہے جو زچگی کے دوران خواتین کو نشانہ بناتی ہے جبکہ ٹائپ فور وہ قسم ہے جو ایک مریض سے دوسرے کو منتقل ہوتا ہے۔

ڈاکٹر ابرار نے بتایا کہ بچوں کو مورثی شوگر بھی ہوسکتا ہے یعنی اگر ایک خاندان کے ہر تیسرے رکن میں شوگر ظاہر ہوتا ہے مثال کے طور پر اگر دادا شوگر کا مریض ہے تو پوتے کو بھی شوگر مرض لاحق ہوسکتا ہے یعنی بچوں میں یہ بیماری  فیملی ریلشن کی وجہ سے بھی پھیل سکتی ہیں۔

دوسری جانب بلال کے والد رحیم خان کی بات سے  اتفاق نہ کرتے ہوئے ڈاکٹر ابرار نے کہا کہ شوگر کے بچے بالکل بھی  سپشل بچے نہیں ہوتے ، ان بچوں میں صرف انسولین کی کمی ہوتی ہے جبکہ یہ کمی انسولین لگانے سے پوری ہوجاتی ہے۔

پرہیز اور خوراک کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ اس بیماری میں بچوں  کا گروتھ پریڈ ہوتا ہے  پرہیز نہیں، اس لئے  والدین اپنے بچوں کی خوراک کو موڈیفائی کریں، بچوں کو صحت مند خوراک دینے کے ساتھ انہیں روزانہ ورزش کا عادی بنائے، ڈاکٹر کے ہدایت کے مطابق ریگولر معائنہ کریں اور اپنے بچوں کواعتماد میں لے  ایسا نہ ہو کہ بچے باہر کوئی ایسی غذا کھائیں جو ان کی صحت کے لئے نقصان دہ ہو۔

ذیا بیطس کی علامت کیا ہیں؟

اس حوالے سے ڈاکٹر ابرار نے بتایا کہ جن بچوں  کا وزن کم ہو رہا ہو، بار بار پیشاب کی شکایت ہو، ایک دم سے عادت  میں تبدیلی رونما ہو( خوراک نہ کھانا یا بار بار خوراک کھانا) تو اس صورت میں والدین اپنے بچوں کو کسی بھی ماہر ڈاکٹر سے معائنہ کرائیں ۔

علاج کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے شوگر انسولین لائف پروگرام کے تحت علاج کی سہولت نہ صرف ایل آر ایچ میں بلکہ صوبے کے تمام ہسپتالوں میں مفت میسر ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button