خیبر پختونخواسیاستفیچرز اور انٹرویو

خیبر پختونخوا میں صحافیوں کے تحفظ کے لئے کوئی قانون موجود نہیں

 

نسرین جبین

پشاور میں سے ہر100 میں سے 4 صحافیوں کو ہر دوسرے روز ہراساں کیا جاتا ہے اور انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں جبکہ انہیں ہراساں کرنے والوں میں مختلف ادارے اور افراد شامل ہیں جن کا تعلق مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں، تنطیموں، مافیا اور دیگر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے ہیں جو کہ صحافیوں کے کام کی حقیقی روح کو متاثر کرتی ہے۔
پشاور میں صحافیوں پر تشدد اور حملوں کی شرح انتہائی کم ہے گزشتہ دوسال میں پشاور میں صحافیوں پر تشدد کے دو واقعات رونما ہوئے اس حوالے سے تشدد کا شکار ہونے والے مقامی اخبار کے رپورٹر نے ٹی این این کو بتایا کہ صحافیوں کے قلم اور زبان کو ڈنڈے اور اسلحے کے زور پر چپ کرادیا جاتا ہے جبکہ انکی بیگم گل ناز نے کہاکہ جب تشدد کا شکار ہو کر میرے شوہر گھر آئے تو سب بچے رونے پیٹنے لگ گئے کہ ابو کو کیا ہوگیا ہے ہم بہت پریشان ہوئے میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ مجھے صحافی شوہر نہیں چاہیے بلکہ اپنے شوہر کی زندگی چاہیے آپ کوئی دوسرا کام شروع کریں جس میں جان کا خطرہ نہ ہو اور میں ہر روز اپنے شوہر کی گھر واپسی تک ان کی صحت اور زندگی کی دعا کرتی ہوں تھوڑی سی بھی دیر ہو جائے تو عجیب سے وسوسے آنے لگتے ہیں میں فون کر کے ان کے حالات معلوم کرتی رہتی ہوں جس دن سے ان سے سرپر لگے ٹانکوں اور بازوں پر شدید زخم دیکھے اس دن سے ایک عجیب ساخوف میرے اوبچوں کے ذہین میں بیٹھ گیا ہے میں اپنے طور پر پر اپنے صحافی شوہر کو مشورہ بھی دیتی رہتی ہوں کہ محتاط ہو کر کام کریں خطرہ مول نہ لیں۔
پشاور پریس کلب کے صدر محمد ریاض کے مطابق علاقائی نسلی اور مذہبی انتہا پسندی عدم برداشت رکھنے والے متعدد افراد سیاسی گروہ صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں صحافیوں کے پاس وسائل نہیں ہوتے کہ وہ تاریخیں بھگتیں ، جرگہ سسٹم کے تحت معافی تلافی کر دی جاتی ہے۔ صحافیوں کودھمکیاں ملنا روز کا معمول ہے یہاں جس کے مفاد کے خلاف خبر چھپتی ہے وہ تشدد پر اتر آتا ہے صحافی خود اپنی مدعیت میں مقدمہ ایف آئی آر درج کراتا ہے ادارے یا ریاست نے کبھی تحفظ نہیں دیا۔ صحافیوں پرحملے میں اکثر بہت سارے لوگ مل کر سامنے نہیں آتے اس لئے انفرادی طور پر کارروائی نہیں ہو سکتی جہاں ہو سکتی ہے وہاں صحافتی تنظیم خیبر یونین آف جرنلسٹ اور پشاور پریس کلب مل کر اسے حل کرا لیتے ہیں صحافیوں کے پاس کوئی طاقت نہیں اور نہ ہی قانونی داد رسی یا امداد حکومت یا ادارے کی طرف سے کی جاتی ہے۔ صحافی اسلحہ لے کر نہیں گھومتا قلم اور کاغذ رکھتا ہے صحا فیوں پر تشدد آئے روز کا معاملہ ہے جس کے خلاف حقائق سامنے لائے جائیں وہی تشدد پر اتر آتا ہے۔ سینیر صحافی اور تجزیہ کار فاروق فراق کے مطابق پشاور میں ہر سو میں سے چار صحافیوں کو ہر دوسرے روز حراساں کیا جاتا ہے تاہم پریس کلب کے بڑے اور یونین کے نمائندے ان معاملات میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور بات کو مزید نہیں بڑھنے دیتے۔
خیبر یونین آف جرنلسٹ کے جنرل سیکرٹری محمد نعیم کے مطابق خیبر پختونخوا میں صحافیوں کے تحفظ کے لئے کوئی قانون موجود نہیں ہے صوبہ سندھ نے قانون پاس کر لیا ہے لیکن ہمارے صوبے میں قانون اور سزائوں کی عدم موجودگی کے باعث دوسروں کو تقویت ملتی ہے اوروہ صحافیوں پرحملہ آور ہوتے ڈراتے دھمکاتے ہیں پشاور میں خصوصاً اورصوبہ بھر میں آج تک کسی صحافی پر تشدد یا قتل اور ٹارگٹ کلنگ کے مرتکب افراد کا نہ تو سراغ لگایا گیا اور نہ وہ گرفتار ہو ئے اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی سزا ہوئی ہے تاہم قبائلی اضلاع اور اسلام آباد کی طرح پشاور میں کسی صحافی کو گزشتہ 8 سال میں اغواء نہیں کیا گیا۔

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ودآوٹ بارڈز کے اعدادو شمار کے مطابق 4 صحافی پشاور میں لقمہ اجل بنے جن میں سال 2018 میں رائل ٹی وی کے نمائندے نور الحسن کو پشاور میں قتل کر دیا گیا 2005 میں روزنامہ اخبار خیبر کے رپورٹر اسفندیار خان بم دھماکے میں شہید ہوگئے سال 2011 میں نیوز ڈیلی کے سیف اللہ وزیر فرائض کی انجام دہی میں بم دھماکے میں شہید ہوئے 2011 میں ہی نصراللہ وزیردی ڈیلی نیوز کے رپورٹر ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہوئے جبکہ 2011 میں ہی ڈیلی پاکستان کے طارق اسلام بم دھماکے میں لقمہ اجل بن گئے۔

صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم ’’رپورٹرز وڈدآئوٹ بارڈر ‘‘ کے پاکستان کے نمائندے اقبال خٹک نے کہا پشاور میں قتل ہو جانے والے چار صحافیوں کو براہ راست قتل کیا گیا ٹارگٹ کلنگ کے ان واقعات کے مرتکب یا ملوث افراد گروہ میں سے کسی ایک کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا اور نا ہی کوئی سزا ہوئی خیبر پختونخوا میں صحافیوں کے تحفظ کے لئے کوئی قانون موجود نہیں ہے کوئی عدالتی نظام اس حوالے سے نہیں ہے سزا سے چھوٹ جانے کا کلچر مضبوط ہےاور صحافیوں پر حملہ اور تشدد اور قتل کر دینے والوں میں ایسے افراد ملوث ہوتے ہیں جن کا سمگلنگ ، نارکاٹکس ، مافیا ، دہشت گردی سے متعلق موضوعات سے براہ راست رابطہ ہوتا ہے ان موضوعات پر کہانیاں لکھنے والوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

پشاور میں لوگ قبائلی رسم و رواج پر آج بھی یقین رکھتے ہیں جہاں کچھ پوچھنا اور بولنا جرم تصور کیا جاتا ہے یہاں سوال کرنا اور رائے کااظہار کرنا مشکل ہے پشاور میں بھی صحافیوں کے لئے صحافت کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں ادارے ، یونین ، پریس کلب حکومت کوئی بھی نہ تو ایف آئی آر درج کراتا ہے اور نہ ہی مقدمے میں کسی طور مدد کرتا ہے ۔عدالتوں کے چکر وکیلوں کی فیسیں ، ملازمت سے برخاستگی پشاور میں اچھی اور غیر جانبدارانہ صحافت میں رکاوٹ ہے کیونکہ صحافیوں کو حقیقی صحافت کے لئے تحفظ حاصل نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان کی بین الاقوامی تنظیم صحافی پر ہر طرح کے حملے اور تشدد کے واقع میں حقیقت حکومت کے علم میں لاتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ اس کی تحقیقات کرائی جائیں صحافیوں کی قانونی امداد فراہم اگر وہ چاہے تو کی جاتی ہے انہوںنے بتایا کہ فریڈم نیٹ ورک پاکستانی ادارہ جس کے وہ سربراہ بھی ہیں کے تحت پاکستان جرنلسٹ سیفی فنڈ قائم کیا گیا ہے جس میں اسے صحافیوں کو جن کو خطرہ لاحق ہو وقتی طور پرخطرے والی جگہ سے محفوظ جگہ منتقل کر دیا جاتا ہے ۔ قانونی جنگ لڑنے کے لیے امداد اور وکیل مہیا کیا جاتاہے ۔ طبی امداد دی جاتی ہے انہوں نے بتایا کہ لنڈی کوتل کے ایک صحافی بم دھماکے میں شدید زخمی ہوگئے ان کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی جس کی سرجری کے لئے اس کا ادارہ اور حکومت

کوئی بھی رقم لگانے کو تیار نہ تھا ایسے میں سیفٹی فنڈ سے اس کی سرجری کرائی گئی جبکہ صحافیوں کے بم دھماکوں وغیرہ میں شہید ہو جانے کی کی صورتحال میں ان کے گھر کے اخراجات اور بچوں کی تعلیم کےلیے بھی فنڈز مہیا کئے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ صحافیوں پر تشدد ، حملوں کی روک تھام صحافی خود ، ان کی تنظیمیں ادارے اور حکومت نہیں کر سکتے بلکہ یہ سہ فریقی حکمت عملی ہے حکومت قانون سازی کرے تشدد کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے ۔ ادارے سیفٹی پروٹوکول رائج کریں مروجہ اصول ہوں اور صحافی ان پرعمل کریں تینوں مل کر طریقہ کار واضح کریں اور ان پر عمل درآمد ہو جب صحافیوں کو انصاف ملے گا تو ریاستی ادارے مستحکم ہونگے۔ صحافی بھی بغیر ثبوت اور تحقیق کام نہیں کریں گے۔ شفاف صحافت ہوگی اور لوگ بھی ان پر حملے اور تشدد سے باز رہیں گے اور غیر ضروری خطرہ مول نہیں لینگے جبکہ ان پر حملہ کرنے والے لوگوں اور ریاستی ا اداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
اس حوالے سے خیبر پختون خوا اسمبلی کی پاکستان تحریک انصاف کی رکن رابعہ بصری نے کہا کہ ہم صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں اور بہت جلد اس کے حوالے سے ک مکمل کر لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت صحافیوں کو ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے گی۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button