‘رنگ کالا ہونے پر خاوند نے دوسری شادی کر کے مجھے طلاق دیدی’
رانی عندلیب
طلاق کی بڑی وجہ شبنم کی کالی رنگت تھی جس کا شوہر اسے ہر وقت کہتا رہتا تھا کہ وہ دوسری شادی کرے گا۔
پشاور شہر کی رہنے والی شبنم کی شادی کو چھ سال ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کالی رنگت کی وجہ سے اس کا شوہر اس پر نہ صرف جسمانی تشدد کرتا تھا بلکہ اس نے دوسری شادی بھی کرلی، پھر بھی ان کا گھریلو ماحول ٹھیک نہ ہوا تو خاوند نے شبنم کو طلاق دے دی۔
شبنم کا کہنا ہے کہ طلاق کے بعد اسے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، اسے خود اور اپنے بال بچوں کی پرورش کے لیے گھروں میں مختلف کام کرنے پڑے، ”شادی کے پہلے دن سے خاوند نے یہی رٹ لگائی تھی کہ وہ دوسری شادی کرے گا۔”
مارپیٹ میں شادی کو جب چار سال ہو گئے تو اس دوران شبنم کو اللہ نے دو بیٹوں سے نوازا، بیٹوں کی پیدائش کے بعد شوہر نے دوسری شادی کر لی اور شبنم کو طلاق دے دی۔
شبنم کے مطابق اس نے خاندان کے بڑے بزرگوں کو اکٹھا کیا، بزرگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ماہانہ خرچہ شبنم اور اس کے بچوں کو دیا جائے، ”صرف ایک مہینہ اس نے خرچہ دیا پھر میرا اور بچوں کا پوچھا تک نہیں۔”
دو تین مہینوں کے بعد شبنم کے شوہر نے اپنے خاندان والوں کو اکٹھا کیا، وہ اپنے دونوں بچے لینا چاہتا تھا لیکن شبنم نے کہا کہ اس نے اپنا شوہر دوسری بیوی کو دے دیا لیکن اپنے بیٹے نہیں دے گی کیونکہ وہ ایک ماں ہے اور ماں اپنے بچوں کو کبھی بھی خود سے جدا نہیں کر سکتی۔
سماجی فعال کیا کہتے ہیں ؟
آج کل پختون معاشرے میں مختلف وجوہات کی بنا پر میاں بیوی کے درمیان طلاق ہو جاتی ہے لیکن سماجی فعال کہتے ہیں کہ طلاق کو پختون معاشرے میں گالی سے کم نہیں سمجھا جاتا کیونکہ وہ اسے اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں۔
باجوڑ سے تعلق رکھنے والے سماجی فعال مولانا خانزیب کا کہنا ہے کہ کوئی بھی پختون مرد اپنی بیوی کو طلاق دینا پسند نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود اسلام میں بیوی کو خلع لینے کی اجازت ہے، ”کہ طلاق کو لوگ بری نظر سے دیکھتے ہیں لیکن پھر بھی بعض وجوہات کی بنا پر طلاق اچھی ہے اور اسے ایک ضرورت بھی سمجھا گیا ہے اور جائز عمل بھی ہے کہ جب میاں بیوی کے بیچ میں سمجھوتا نہیں ہو سکتا اور نہ ایک دوسرے کے رویوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ یہ اپنا گھر بسانا چاہتے ہیں تو اس صورت میں طلاق دینا جائز ہے، اور ضروری عمل ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس معاملے میں شریعت خلع دینے کی بھی اجازت دیتا ہے، دوسری صورت میں جب شوہر گھر کو گھر نہیں سمجھتا اور بیوی کے جائز حقوق بھی پورے نہیں کرتا، اس صورت میں بیوی عدالت کے ذریعے، بڑے بزرگوں کے ذریعے، قاضی کے ذریعے اور جرگے کے ذریعے خلع بھی لے سکتی ہے۔”
مولانا خانزیب کے مطابق طلاق لینے یا دینے کی بڑی وجہ یہ ہے، جس کو ہم پختون معاشرے کی تاریخ میں دیکھتے ہیں، کہ پختون ایک شادی سے زیادہ یعنی دو تین یا چار شادیاں بھی کر لے تو اس کو چاہیے کہ تمام بیویوں میں انصاف کرے لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے اس صورت میں بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے لیکن اس بارے میں تمام لوگوں میں آگاہی اور شعور پیدا کرنا ہے تاکہ معاشرے میں جو طلاق کی شرح ہے وہ کم ہو جائے، ”پہلے میاں بیوی کے درمیان صلح کرانے اور گھر بسانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے اور اگر گھر نہیں بس رہا تو پھر طلاق دینے میں ہی عافیت ہے۔”
دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ کی وکیل پلوشہ کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں تقریباً ایک ہزار خواتین نے عدالت کے ذریعے خلع لیا ہے جس کی بڑی وجہ گھریلو تشدد ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ کوئی شوہر آئس کا نشہ کرتا ہےاور گھر آتا ہے تو بیوی پر جسمانی تشدد کرتا ہے جس پر ساس بہو کی لڑائیاں بھی ہوتی ہیں اور پھر بیوی شوہر کے ساتھ نہیں رہتی اور اس کے پاس خلع لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ باقی نہیں رہتا ہے۔