بلاگزخیبر پختونخوا

‘کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ مجھ میں کوئی بیماری ہے’

مریم انم 

‘میرے خاندان والے اس بات کو ماننے سے انکاری ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ مجھے کوئی نہ کوئی بیماری ضرور لاحق ہے جس کی وجہ سے مجھے اپنی ہزاروں خوبیاں نظر نہیں آتی اور میری ایک خامی مجھے رات کو سونے نہیں دیتی اور میں 24 گھنٹوں میں اٹھارہ گھنٹے بغیر کسی وجہ کے اداس رہتی ہوں ‘

بی ایس فورتھ سمسٹر کی طالبہ رضیہ اپنی کلاس میں سب سے ذہین بچی ہے اور وہ پڑھائی کے ساتھ باقی سرگرمیوں میں  ھی پیش پیش رہتی  ہے  تاہم انکا کہنا ہے کہ مجھے لوگوں  کے رویوں  میں مثبت پہلو نظر نہیں آتا اور ہر انسان کو شک کی نظر سے دیکھتی ہوں جبکہ گھر میں ہونے والی  چھوٹی چھوٹی چپقلس میری مہینوں کی نیند حرام کردیتی ہے۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے رضیہ نے بتایا کہ ‘میں باقی ہم عمر لڑکیوں کی نسبت کافی کمزور دل کی لڑکی ہوں، چھوٹی چھوٹی  باتیں مجھے اتنا پریشان کرتی  ہے جیساکہ میرا کوئی بہت بڑا نقصان ہوا ہے  لیکن ان سب باتوں کا ذکر میں اپنے گھر والوں کے سامنے نہیں کرسکتی کیونکہ ہمارے معاشرے  کے لوگوں کا خیال ہے کہ لڑکی کو تب دماغی  مسائل پیش آتے ہیں جب انہیں کوئی پسند آجائے یا وہ شادی کے معاملے میں ماں باپ کی مرضی کے خلاف ہو ‘

انہوں نے بتایا کہ مجھے ڈر ہے کہ میں  اپنی اس حالت  سے تنگ آکر خودکشی نہ کرلو کیونکہ یہ بہت  تکلیف دہ ہوتا ہے  جب آپ اندر ہی اندر کسی کمی کا شکار ہو اور آپ کے گھروالوں کو وہ کمی  نظر ہی نہ آئے۔

ہمارے معاشرے میں جہاں غربت  اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے  بے شمار مسائل کا سامنا ہے تو دوسری جانب اسی معاشرے میں رہنے والی  ہزاروں لڑکیوں کو بھی بے شمار مسائل  درپیش ہیں جس کی وجہ  تعلیم کی کمی اور معاشرے میں  خواتین  کے متعلق کم اگاہی ہے  کیونکہ  ہمارے معاشرے  میں زیادہ تر خاندان ایسے ہیں جہاں پر لڑکیاں کھل کر اپنی مسائل نہیں بیان کرسکتی  اور وقت پر علاج  نہ ہونے کی وجہ سے ان کی زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں۔

اس حوالے سے میں نے جب  ایک سائیکالوجسٹ ڈاکٹر مسلم سے رابط کیا تو انہیں نے بتایا کہ  اس قسم کی بیماری  زیادہ خطرناک نہیں ہوتی  او نہ ہی یہ کوئی ایسی بڑی بیماری ہے جس کے لئے مریض کو ہسپتال لے جانے پڑتا ہے ۔ اس بیماری کو احساس کمتری کی طرح ہی مانا جاسکتا ہے کیونکہ  اس میں مریض ہمیشہ دوسرے لوگوں پر نظر رکھتا ہے  اور  اسے  اپنے اندر موجود قابلیت نظر نہیں آتی اس لئے  اس کے ذہن میں اس قسم کے خیالات آتے ہیں۔

ڈاکٹر مسلم کے مطابق یہ کیسز زیادہ تر ان خاندانوں میں ہوتے ہیں جہاں تعلیم کی کمی اور ماں باپ کا بچوں کے ساتھ  مضبوط تعلق نہ ہو ، بچے  اور بچیاں والدین کو بات بتانے کے بجائے چھپانے میں زیادہ سکون  محسوس نہیں کرتے  اور اس میں یہ نہ دیکھنے والی بیماری بچوں کی پوری زندگی برباد کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ اس طرح کے تعلق رکھے جس میں بچے والدین کو ہر قسم بات  کرنے میں ڈر محسوس نہ کرے، والدین اپنے بچوں کو چھوٹے چھوٹے کاموں پر شاباشی دے تاکہ انکا حوصلہ  مزید بڑھ جائے اور وہ اپنی اندر کی خوبیوں کو  دیکھ سکے تب جاکر کوئی مریض اس قسم  بیماری سے چھٹکارہ پاسکتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button