بلاگز

افغانستان: چند سوالات اور ضم اضلاع کے کشیدہ حالات

رضیہ محسود

روس کو شکست دینے کے بعد جب افغانستان پر طالبان حکومت آئی تو ان کے قوانین بہت زیادہ سخت اور ظالمانہ تھے، اتنے ظالمانہ کہ ایک عام آدمی ان کو دیکھ کر ہی کانپ جاتا، معمولی معمولی باتوں پر سخت سے سخت ترین سزائیں دی جاتی تھیں۔

اس وقت کے مظالم کی ویڈیوز اگر آج بھی کوئی دیکھے تو اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ طالبان کے نام سے ہی خوف کھانے لگتے ہیں اور طالبان سے پناہ مانگتے رہتے ہیں۔ اس وقت کے عوام اس سخت ترین نظام زندگی سے اتنے تنگ تھے کہ وہ چاہتے تھے کہ ہمیں کفار کی حکومت میں رہنا پسند ہے مگر اس طرح کے سخت اور ظالم ترین حکومت کو برداشت نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نئن الیون میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ہوا اور اس کے ردعمل میں امریکہ نے افغانستان پر دھاوا بول دیا اور طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا تو لوگوں نے انتہائی خوشی کا مظاہرہ کیا اور وہ لوگ جو طالبان کے دور حکومت میں افغانستان چھوڑ کر پاکستان اور یورپین ممالک جا چکے تھے وہ بھی واپس اپنے وطن افغانستان آنا شروع ہو گئے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو امریکہ سمیت 40 سے زائد ممالک افغانستان پر قابض ہو چکے تھے مگر پر بھی لوگوں کو پرامن زندگی ایک خواب کی تعبیر نظر آ رہی تھی۔

سابقہ طالبان حکومت میں خواتین کے حوالے سے بھی کافی سختیاں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے حالات کافی سنگین تھے یہاں تک کہ عورتوں کی تعلیم کا تصور بھی نہیں ہوتا تھا، معمولی غلطی پر سرعام سنگسار کیا جاتا تھا، لوگوں کو سزا دے کر سرعام چوکوں اور چوراہوں پر لٹکایا جاتا تھا جس کو نہ صرف مرد حضرات بلکہ خواتین اور بچے بھی دیکھ کر کانپ جاتے تھے۔ زور زبردستی اسلام کو نافذ کرنے کا ایک ایسا نظام قائم تھا جو طالبان حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔

کہتے ہیں کہ جب دل سے اسلام کے قوانین کو قبول نہ کیا جائے، زبردستی قبول کئے ہوئے قوانین کا کوئی فائدہ نہیں نکلتا کیونکہ بندہ نہ دین کا رہتا ہے اور نہ دنیا کا، اعمال کا تمام دارومدار نییتوں پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بھی زور زبردستی کرنے سے منع کیا ہے، ہاں! اسلام کی تبلیغ کرنے کا پورا پورا اختیار دیا گیا ہے کہ جو اچھی بات سنو اور سیکھو وہ دوسروں تک پہنچاؤ۔ لیکن سابقہ طالبان کی حکومت میں پورا نظام زور زبردستی کا تھا اور اتنا سخت گیر تھا کہ لوگوں کو طالبان کے اعمال کی وجہ سے اسلام کے قوانین سے نفرت ہونے لگتی تھی۔

اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور اسلام نے زندگی کے ہر پہلو کو بہت ہی اچھے طریقے سے واضح کیا ہے مگر سابقہ طالبان کی حکومت کی کچھ غلطیوں کی وجہ سے نہ صرف وہاں کی عوام بلکہ پوری دنیا کے لوگ ان کے نام سے نفرت کرنے لگے اور طالبان کی حکمرانی ان کو ایک برے خواب جیسی نظر آتی تھی کیونکہ ان کی حکومت میں کوئی لچک موجود نہیں تھی۔

اب جب 15 اگست کو دوبارہ طالبان نے افغانستان پر چڑھائی کی تو وہاں کے لوگوں پر سابقہ طالبان حکومت کا وہ خوف طاری تھا جس کی وجہ سے لوگوں میں افراتفری پھیل گئی اور لوگوں نے افغانستان کو چھوڑ کر بھاگنے کی کوشش شروع کی، کوئی پیدل ترکی کے راستے یورپ جانے لگا تو کوئی ہوائی ٹکٹ کر کے امریکہ اور باقی ممالک کی راہ لینے لگا حالانکہ اگر دیکھا جائے تو طالبان نے بغیر جنگ کے بہ آسانی افغانستان کو فتح کر لیا اور طالبان حکومت کی جانب سے عوام کو پرامن رہنے کی بار بار تاکید ہوتی رہی اور دوسری بڑی بات کہ طالبان نے افغانستان کو فتح کرنے کے ساتھ ہی لڑکیوں کی تعلیم کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی خواتین کو پردے میں رہ کر نوکریاں کرنے اور دیگر شعبوں میں کام کرنے کی اجازت بھی دے دی اور ہسپتال جا کر وہاں کی خواتین ڈاکٹرز کے ساتھ بیٹھ کر ان کو یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ آپ جن جن شعبوں سے وابستہ ہیں، آپ اپنا کام جاری رکھیں، آپ ہماری بیٹیوں، بہنوں اور ماؤں جیسی ہیں، ہم یہاں صرف اس لئے آئے ہیں تاکہ آپ خواتین کی حوصلہ افزائی ہو سکے کہ آپ پردے میں رہ کر اپنا کام جاری رکھ سکتی ہیں، ہماری طرف سے کوئی دباؤ نہیں۔

وہ طالبان جو خواتین کے گھروں سے نکلنے کو ہی برا اور قابل سزا جرم سمجھتے تھے وہ آج خود ان خواتین کو حوصلہ دے رہے ہیں اور دوسری بات کہ میڈیا کو سابقہ طالبان کفر کی علامت سمجھتے تھے آج کے طالبان جو میڈیا کی اہمیت و افادیت کو سمجھتے ہیں وہ خود میڈیا کو اجازت دے رہے ہیں اور عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ آؤ اور اپنے اپنے چینلز کو سنبھالو۔ مطلب طالبان نے افغانستان آ کر جو اعلانات کئے ان کو دیکھ کر لوگ حیران و پریشان ہیں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے کیا طالبان نے ماضی میں کی گئی غلطیوں سے یہ سبق حاصل کر لیا ہے کہ عوام کا دل زور زبردستی سے نہیں بلکہ ایک لچکدار نظام سے ہی جیتا جا سکتا ہے اور عوام کی طاقت کے بغیر ایک ملک کو چلانا آسان نہیں۔

اس کے ساتھ ہی ذرائع سے جو معلومات ملی ہیں ان کے مطابق طالبان حکومت نے غیرسرکاری تنظیموں کو بھی سیکیورٹی فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے اور عالمی دنیا سے بہتر تعلقات استوار کرنے کی حامی بھی بھر لی ہے مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے دیں گے۔

طالبان حکومت کے آنے سے اور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان کے قبائلی اضلاع میں بھی حالات کافی کشیدہ دکھائی دے رہے ہیں اور کچھ بم دھماکے اور حملے بھی کئے گئے جن میں پاک افواج اور ایف سی کے لوگ بھی شہید ہوئے اور ساتھ ساتھ ان واقعات کے رونما ہونے سے وہاں کے پرامن شہریوں کو بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ جب ایسا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا تو وہاں کی مقامی آبادی کے لوگوں کو اٹھا کر تنگ کیا جاتا  جس سے قبائلی عوام احتجاج اور قومی جرگے کرنے پر مجبور ہوئے کیونکہ اس سے پہلے بھی لوگوں نے دہشت گردی کی اس جنگ کی وجہ سے اپنے علاقوں سے ہجرت کی تھی اور اپنے گھر، اپنا کاروبار اور سازوسامان چھوڑ کر اس نام نہاد دہشت گردی کے خاتمے کا انتظار کرنے لگے تھے اور اب جب وہ واپس اپنے اپنے علاقے کو جانے لگے اور دوبارہ سے تعمیراتی کام شروع کئے، اپنے مسمار شدہ گھروں کو تعمیر کیا اور دوبارہ سے اپنی زندگی کو معمول کی طرف لانے لگے اور علاقے میں امن کے گیت گانے لگے تو اچانک سے پھر سے طالبان رونما ہونا شروع ہو گئے اور ناخوشگوار واقعات کی صورت میں گرفتار ہونے لگے تو لوگوں نے تنگ آ کر احتجاجی مظاہرے شروع کئے کہ خدارا اب تو ہماری حالت پر رحم کیا جائے۔ جب دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی تھی تو پھر سے یہ دہشت گرد کہاں سے نمودار ہونا شروع ہو گئے ہیں اور کب تک ہم اپنے علاقے اور اپنے گھروں کو چھوڑ کی متاثرین کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔

اب جب افغانستان پر طالبان کی حکومت آئی تو سابقہ قبائلی اضلاع کے لوگوں میں تشویشناک صورتحال پیدا ہو گئی کہ اب ان قبائلی لوگوں کے ساتھ کیا ہو گا؟ سوالات اٹھنے لگے کہ اب ہم مزید کن حالات سے گزریں گے کیونکہ جنوبی وزیرستان میں کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنا وجود ظاہر کرنے کے لئے باقاعدہ دیواروں پر وال چاکنگ بھی کی جس سے علاقے کے لوگوں میں مزید خوف و ہراس پھیل گیا کہ وہ طالبان جن کے سخت قوانین تھے وہ اتنے پسندیدہ فیصلے کیسے کر سکتے ہیں؟

اور لوگ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ آیا واقعی طالبان حکومت نے اپنی سابقہ غلطیوں سے سبق حاصل کیا ہے یا وہ کسی مخصوص خفیہ پالیسی کا حصہ ہیں، آیا وہ اپنے بل بوتے پر کامیاب ہوئے ہیں یا وہ امریکہ کی کسی سازش کا حصہ ہیں۔طالبان نے افغانستان کو فتح کرنے کے ساتھ ہی اعلان کیا کہ اب جنگ کا خاتمہ ہو چکا ہے اب مکمل امن آئے گا۔ کیا واقعی امن آئے گا یا مستقبل میں بھی ماضی کی طرح کے حالات کا پھر سے سامنا کرنا پڑے گا؟

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button