بلاگزخیبر پختونخوا

آن لائن سسٹم کی وجہ سے نا کچھ سیکھا نا کچھ سمجھا

 

لائبہ حُسن

کوویڈ 19 وبائی وائرس نے ہر ایک کی زندگی کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا ہے جس سے ہم طلباء بھی متاثر ہوئے نہ رہ سکے۔ ہم یونیورسٹی واپس جانے اور اپنے امتحانات معمول کے مطابق دینے سے قاصر ہیں اور بہت سی یونیورسٹیوں کی طرح ہماری یونیورسٹی نے بھی آن لائن کلاسز کے بعد آن لائن امتحانات کا سہارا لیا۔

موجودہ عالمی صورتحال میں ،حکومت نے طلباء کی تعلیم و امتحانات کو ترجیح نہیں دی جسکی وجہ سے تعلیمی نظام مزید خراب ہوگیا ہے ، ہمارے زیادہ تر دوستوں کا کہنا ہے کہ آن لائن سسٹم کی وجہ سے نا کچھ سیکھا نا کچھ سمجھا۔

یونیورسٹی میں سال 2019 میں مجھے داخلہ ملا اور صرف پہلا سمسٹر میں نے فزیکل پڑھا اور  امتحان دیا اور بہت کچھ سیکھا اسکے بعد دوسرے سمسٹر کے شروع  میں ہی کورونا کی پہلی لہر آئی جسکی وجہ سی پورا ملک متاثر ہوا  اور حکومت نے آن لائن کلاسز اور امتحانات کا فیصلہ کیا جسکی وجہ سے طلباء بہت متا ثر ہوئے اور یہ سسٹم اب تک چلتا آرہا ہے۔

امتحانات کا طریقہ کار :

ہمارے امتحانات کا طریقہ کار کچھ یوں تھا کہ پانچ مضامین ہوتے ہیں اور ہر ایک پرچے میں پانچ سے آٹھ تک سوالات ہوتے ہیں جو کہ پروفیسر کو 24 گھنٹوں میں بذریعہ ایل بھیجنا پڑھتا، سوالات ایسے عجیب و غریب ہوتے جن کے جوابات نا تو کسی بڑے سکالر کو آتے نہ ہی انٹر نیٹ پر موجود ہوتے، بحرحال ہم نے اپنے مضمون کے حوالے سے بس اتنا لکھا جتنا ہم آن لائن سسٹم سے سمجھ سکے تھے۔

طنز اور طعنے سننا

ایک طرف تو ہم امتحانات کو لے کر ذہنی طور پر پریشان ہوتے تو دوسری طرف گھر والوں سمیت تمام لوگ کہتے کہ تم لوگ تو نقل کر کر کے پیپر دیتے ہو ، تم لوگ تو ٹاپ کروگے تم لوگوں کی کیا ٹینشن ہوگی ، تم لوگ تو خوش قسمت ہو وغیرہ وغیرہ جیسی باتیں سننے کو ملتی۔ رشتہ داروں کی نظر میں بھی ہماری قابلیت کو نقل کا نام دیا گیا اور خاندان میں ہنسی مذاق بننے لگا۔

سوشل میڈیا اور طلباء: 

رشتہ داروں اور قریبی دوستوں کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی آن لائن امتحانات کے حوالے سے میمز بننے لگے اور لوگ مذاق اڑانے لگے جس کی وجہ سے ایک محنتی طلبا بھی احساس کمتری کا شکار ہوسکتا ہے۔

میں اگر اپنی بات کروں تو میں آن لائن کلاسز اور آن لائن امتحان کے حق میں بالکل نہیں ہوں کیونکہ اس کی وجہ سے کئی محنت کش طلبہ کے ساتھ نا انصافی ہوجاتی ہے پڑھنے اور محنت کی لگن ختم ہوجاتی ہے ہم اس بنا پر نہیں پڑھتے کہ چلو انٹرنیٹ ہے نوٹس ہیں ان سے نقل کر لینگے محنت کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسی تعلیم اور اسکے حاصل کرنے کیلئے یونیورسٹیوں میں ہزاروں کی فیس بھرنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں جس سے ہم کچھ سیکھ نہ پائے اور محنت کی عادت بھی ختم ہوجائے کیونکہ اصل تعلیم تو وہ ہے جسکے لئے محنت کی جائے جو لگن سے حاصل ہو جسکے پیچھے  ان تک محنت ہو نا کہ انٹرنیٹ سے پرچے حل کئے جائے۔

میں اتنا کہوں گی کہ ہمارے تعلیمی وزراء اور حکومت کو چاہئیے کہ صحت کے ساتھ ساتھ تعلیم کو بھی اولین ترجیح دے کیونکہ اس سے ہمارے ملک کا مستقبل وابستہ ہے اور ترقی وہی قومیں کرتی ہے جو تعلیم کے میدان میں آگے ہو۔

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button