صوابی: ایک سال سے زنجیروں میں بندھی خاتون بازیاب
رفاقت اللہ رزڑوال
صوابی پولیس نے خفیہ اطلاع پر ایک سال سے محبوس خاتون کو بازیاب کرایا ہے۔
صوابی پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں خفیہ طور پر اطلاع ملی کہ چار بھائیوں نے اپنی مطلقہ بہن کو نوکری سے روکنے کیلئے گھر کے کمرے میں زنجیروں سے باندھا ہوا ہے جس پر پولیس ٹیم نے چھاپہ مار کر اسے بازیاب کرایا۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت میں ضلع صوابی کے ڈی ایس پی بشیر یوسفزئی نے بتایا کہ انہیں اطلاع ملی کہ دیہہ درہ کے علاقے میں گھر کے اندر ایک خاتون زنجیروں سے بندھی ہوئی ہے جس پر انہوں نے ایس ایچ او کو ہدایات دیں کہ اپنے ساتھ لیڈیز پولیس لے کر واقعے کی تحقیقات کریں۔
ڈی ایس پی بشیر کے مطابق جب پولیس وہاں پر پہنچی تو کمرے کے اندر ایک خاتون کے گلے، پھیروں اور ہاتھوں میں زنجیریں لگے ہوئے تھے، "زنجیر کا فاصلہ اتنا تھا کہ وہ کمرے کے اندر باتھ روم تک جا سکتی تھی، محبوس خاتون نے رو کر کہا کہ اسے اپنے بھائیوں نے زنجیروں سے باندھا ہوا ہے۔”
بیشر یوسفزئی نے کہا کہ اسی وقت خاتون کے بھائیوں سائر خان، فہیم خان اور ندیم خان ساکنان درہ گرفتار کئے گئے جبکہ چوتھا موقع سے بھاگ گیا جس کی گرفتاری جلد عمل میں لائی جائے گی۔
پولیس افسر یوسفزئی نے خاتون بارے بتاتے ہوئے کہا ‘وہ مطلقہ ہے اور اس کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے جن کے لئے وہ نوکری کرنا چاہتی تھی مگر بھائیوں کو اس کی کمائی کا عمل ناگوار گزر رہا تھا اس لئے اسے گھر کے کمرے میں باندھ دیا تھا۔’
پولیس کا کہنا کہ خاتون کو ضلع مردان کے دارلامان میں لے جایا گیا ہے اور اُس سے مزید تحقیقات کیلئے عدالت کو کسٹڈی کیلئے درخواست دی جائی گی۔
انہوں نے کہا کہ ملزمان کے خلاف دفعہ 506 (دھمکیاں دینا)، 342 (حبس بے جا میں رکھنا)، 354 (عفت میں خلل ڈالنا) اور 34 (ایک سے زیادہ ملزمان) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جنہیں کل عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے خواتین پر تشدد کے خلاف اور تحفظ کا قانون 2021 بھی منظور کر لیا گیا ہے مگر خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے فعالین کا کہنا ہے کہ اس کا نفاذ اُس طریقے سے نہیں کیا جاتا جس کی توقع تھی۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں عورت فاؤنڈیشن کی رُکن شبینہ ایاز نے بتایا کہ خواتین پر تشدد کی شرح بڑھ چکی ہے اور اس کے لئے ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ بنائے گئے قانون پر عمل درآمد کیا جائے۔
خواتین پر تشدد کے خلاف اور ان کے تحفظ کے قانون 2021 خیبر پختونخواہ میں واضح کیا گیا ہے کہ خواتین پر تشدد کرنے والے کو پانچ سال تک قید اور جرمانے کی سزا ہو گی۔
قانون کے مطابق ضلعی سطح پر حفاظتی کمیٹیاں قائم کی جائیں گی جن میں ڈپٹی کمشنر، ایگزیکٹیو ڈسٹرکٹ آفیسر، سوشل ویلفیئر آفیسر، ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر، پولیس کا ایک نمائندہ، ایک خطیب، گائناکالوجسٹ اور ماہر نفسیات شامل ہوں گے جو کسی بھی شکایت کا جائزہ ثبوتوں اور حقائق کے ساتھ لیں گے، جس کے بعد ہی یہ فیصلہ ہو گا کہ تشدد کی نوعیت کیا ہے؟ یہ کمیٹی فریقین کے درمیان مصالحت اور شکایت کنندہ کے لیے محفوظ پناہ گاہ تلاش کرنے جیسے امور بھی سنبھالے گی، کمیٹی متاثرہ خواتین کی شکایت سنی گی اور بعد ازاں عدالت سے خواتین کو انصاف دلانے کیلئے رجوع کیا جائے گا۔
قانون میں عدالت کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ خواتین پر تشدد کے مقدمات پر دو ماہ کے اندر اندر فیصلہ سُنائے گی اور جو عدالتی فیصلے کی خلاف وزری کرے تو مزید ایک سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔
لیکن شبینہ آیاز کا کہنا ہے کہ بیشتر اضلاع میں نہ تو کمیٹیاں بنائی گئی ہیں اور نہ عدالتوں میں فیصلے بروقت سُنائے جاتے ہیں، ”جب عدالتی فیصلے تاخیر کا شکار ہوں تو واقعات اور تشدد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔”
انہوں نے کہا "ایک طرف تو عدالتی فیصلے بروقت نہیں ہوتے تو دوسری طرف اکثر متاثرہ خواتین کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے اور اُن سے ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ جیسے مجرم یہی خاتون ہے یہاں تک کہ ہمارے وزیراعظم بھی کہتے ہیں کہ اگر خواتین چھوٹے کپڑے نہ پہنیں تو ان کا ریپ نہیں ہو گا۔”
خیبر پختونخوا پولیس کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2018 کی نسبت 2019 میں خواتین پر تشدد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2018 میں 180 خواتین کو قتل کیا گیا تھا جبکہ 2019 میں 217 کو قتل اور 36 پر جسمانی تشدد کیا گیا تھا۔
ر
پورٹ کے مطابق سال 2020 میں خواتین کو تشدد سے بچانے کی غرض سے پانچ سرکاری شیلٹر ہومز میں 5،515 خواتین کو لایا گیا ہے۔