‘دوران حمل سسرال والوں کی لاپراوہی سے معذور ہو گئی’
اسما گل
”میری شادی کم عمری میں کی گئی تھی اور میں زچہ و بچہ کے حوالے سے ناواقف تھی ، پھر جب میں پہلی بار امید سے ہوئی تو اس وقت میں بہت سے پیچیدگیوں کا شکار ہونے لگی اور آہستہ آہستہ میری دونوں ٹانگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا جبکہ اب میں معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئی ہوں۔”
مردان سے تعلق رکھنے والی نصرت بی بی کے مطابق معذوری کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کی صحیح پرورش کرنے سے لاچار ہو گئی ہیں جبکہ معذوری کی حالت میں گھر کا کام کرنے کے ساتھ ساتھ وہ بیماری کی حالت میں بچوں کا خیال بھی رکھتی ہیں۔
نصرت کے بقول جب وہ پہلی بار امید سے ہوئی تھیں تو اس وقت نہ تو سسرال میں ان کی خوراک اور آرام کا خیال رکھا جاتا تھا اور نہ ہی کسی نے ان کے چیک اپ وغیرہ پر کوئی دھیان دیا جبکہ انہیں خود بھی یہ علم نہیں تھا کہ وہ کیسے اپنا خیال رکھیں گی، کون سی چیزیں کھائیں گی اور کن چیزوں سے پرہیز کریں گی، یہی وجہ ہے کہ وہ ماں بننے کے بعد کمزوری کی وجہ سے معذور ہو گئیں۔
وہ کہتی ہیں کہ انہیں بعد میں پتہ چلا کہ حمل کے دوران ذہنی دباؤ اور آرام کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے ماں اور بچے دونوں کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے جبکہ میرے شوہر سمیت سسرال میں کسی کو بھی نہ میری پرواہ تھی اور نہ ہی میرے بچے کی اور جب میرے بچے کی پیدائش ہوئی تب بھی کسی کو خیال نہیں آیا اور میں بیماری کی حالت میں گھر کے کاموں کے ساتھ اپنے بچے کا خیال رکھتی تھی۔
دوسری جانب پشاور کی رہائشی شہناز نے اس حوالے سے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر لوگ حمل کے دوران ماں اور بچے کی صحت کے متعلق احتیاطی تدابیر سے آگاہی نہیں رکھتے جس کی وجہ سے یا تو زچگی کے دوران ماں اور بچے اور یا حمل کے بعد دونوں میں سے کسی ایک کی صحت پر منفی اثر پڑتا ہے۔
ان کے بقول بہو بھی بیٹی کی طرح ہوتی ہیں اور جس طرح ہم اپنے گھروں میں بیٹیوں کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی بہو کا بھی خیال رکھیں جبکہ یہ سسرال والوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بہو کی بیماری، خوراک اور علاج کا خاص طور پر خیال رکھیں کیونکہ وہی بہو سسرال کے خاندان کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں؟
ماہر امراضِ زچہ و بچہ ڈاکٹر ناہیدہ کے مطابق ماں بننے والی خواتین پر گھر کے کام کاج کا زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے اور انہیں آرام کرنے کا پورا موقع دینا چاہیے کیونکہ اگر ایک ماں ذہنی اور جسمانی طور پر صحتمند ہو تو وہ ایک تندرست اور صحت مند بچے کو جنم دے سکتی ہے۔ ڈاکٹر ناہیدہ کے مطابق کم عمر لڑکیوں کا ماں بننا بھی ان کی زندگی کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ کم عمری کی وجہ سے ان کا جسم اتنا بالغ نہیں ہوتا کہ وہ اتنی بڑی ذمہ داری اٹھا سکیں اور ایک بچے کو جنم دیں۔
انہوں نے حاملہ خواتین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ سب سے پہلے ضروری ہے کہ خواتین باقاعدہ طور پر چیک اپ کراونے کے لیڈی ڈاکٹر کے پاس جایا کریں تاکہ وہ ممکنہ پیچیدگیوں کا کم سے کم شکار ہوں جبکہ اگر کوئی ڈاکٹر مریض کو دوائیاں تجویز کرتا ہے (کیونکہ ہر کنڈیشن کے لئے اپنی سپیسفائیڈ ادویات ہوتی ہیں جن کا استعمال حاملہ خواتین اور آنے والے بچے کی صحت کے لئے انتہائی ضروری ہے) وہ استعمال کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اچھی خوراک، وٹامنز سے بھرپور غذا اور آرام بھی ماں اور بچے کی صحت کے لئے انتہائی مفید ہے۔
دوسری جانب ایک بین الاقوامی ادارے وومن اِن ویوو کی ایک تحقیق کے مطابق حمل اور بچے کی پیدائش اکثر خواتین کی موت کی وجہ بن جاتی ہے کیونکہ زیادہ تر گھرانے ماں اور آنے والے بچے کی صحت کے متعلق احتیاطی تدابیر سے آگاہی نہیں رکھتے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ان ہلاکتوں میں95 فیصد کم اور درمیانی آمدن والے ممالک شامل ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے لیکن ہمارے ہاں ایک اہم وجہ صحت کی بنیادی سہولیات تک رسائی سے دوری بھی ہے اورسسرالیوں کے غیرذمہ دارنہ رویے بھی، جو ایسے نازک حالات میں خواتین کی مشکلات دوچند کر دیتے ہیں۔
سماجی کارکن کیا کہتے ہیں؟
ضلع کرم سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن نائلہ الطاف کے مطابق بچے کی پیدائش کی ذمہ داری ماں اور باپ دونوں پر عائد ہوتی ہے اور سسرال والوں کے ساتھ شوہر کا بھی حق بنتا ہے کہ وہ اپنی حاملہ بیوی کی دیکھ بھال کرے اور انہیں مطلوبہ سہولیات فراہم کرے جو ضروری ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ حاملہ خاتون کو ہر مہینے ہسپتال لے جا کر ان کا چیک اپ کرانا ماں اور بچے دونوں کی صحت کے لئے مفید ہے کیونکہ اس دوران حمل یا ڈیلیوری کے وقت کسی بھی قسم کی مشکلات سے باآسانی نمٹا جا سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارے زیادہ تر علاقوں میں بیشتر خواتین دوران حمل موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں جس کی وجہ معاشرے میں آگاہی، علاقے میں ہسپتال، پکی سڑکوں اور ماہر ڈاکٹروں کی عدم دستیابی ہے لہذا حکومت اس حوالے سے مثبت اقدامات اٹھائے تاکہ ہر گھر میں صحت مند بچوں کے ساتھ تندرست مائیں بھی خوشحال زندگی گزار سکیں۔ (بشکریہ ٹی این این)