محسود اور وزیر اقوام نیگمال کے متنازعہ علاقے میں فائر بندی پر راضی، اصل تنازعہ کیا ہے؟
رضوان محسود
جنوبی وزیرستان کے محسود اور شمالی وزیرستان کے وزیر قبائل جرگہ کی مداخلت پر نیگمال کے متنازعہ زمین پر فائربندی پر راضی ہوگئے ہیں۔
نیگمال کا یہ پندرہ سو کنال تک متنازعہ علاقہ جنوبی وزیرستان کے تحصیل لدھا اور شمالی وزیرستان کے رزمک تحصیل کے درمیان واقع ہے جس پر دونوں اضلاع کے قبائل ملکیت کا حق جتاتے ہیں جس کی وجہ سے ابھی تک دونوں قبائل کے مابین کئی بار لڑائیاں بھی ہوئی ہیں جن میں ایک شخص جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔
جنوبی وزیرستان کی انتظامیہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں اقوام نے علاقے میں نئے نافذ ہونے والے الٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن (اے ڈی آر) کے تحت بننے والے جرگے کے مطالبہ پر فائربندی پر رضامندی ظاہر کی ہے اور مسئلے کے حل کے لئے انتظامیہ کو اپنے مختص نمائندوں کے نام بھی دے دئے ہیں۔
اس ضمن میں وزیر قوم کی جانب سے ملک نصراللہ جبکہ محسود قوم کی جانب سے ملک عنایت محسود کو نامزد کیا ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر لدھا فرحان خان کا کہنا ہے کہ دونوں اقوام نے منتخب مشران کو مکمل اختیار دے دیا ہے اور باقاعدہ معاہدے پر دستظ کئے ہیں کہ ان کی جانب سے جو بھی فیصلہ کیا جائے گا انہیں قبول ہوگا۔ معاہدے پر اے سی لدھا اور اے سی رزمک نے بھی دستخط کیے ہیں۔
معاہدے کے مطابق بقر عید کے پانچویں دن دونوں مقرر کردہ مشران اس متنازعہ جگہ کا دورہ کریں گے اور جائزہ لینے کے بعد فیصلہ دیں گے۔ تب تک دونوں اقوام نے مکمل فائربندی اور پرامن رہنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اس زمین پر پہلا تنازعہ 2011 میں اس وقت پیش آیا تھا جب اپریشن راہ نجات سے متاثرہ محسود قوم دوبارہ آباد کاری کے لئے واپس اپنے علاقے پہنچ گئی۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ملک بن یامین کا کہنا ہے کہ جب محسود قوم واپس آئی تو اس علاقے پہلے سے موجود وزیر قوم نے قبضہ کر رکھا تھا اور سارے جنگلات کی دعویداری بھی کر رہے تھے جبکہ وزیر قوم کے مشران کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ پہلے سے ہی ان کی ملکیت ہے۔