‘ہسپتال کیخلاف میڈیا پر خبر نشر ہونے والے صحافی کیخلاف کاروائی ہوگی’
محمد باسط خان
چارسدہ ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے ہسپتال کے اندر میڈیا کوریج پر پابندی عائد کردی گئی ہے جبکہ کسی بھی میڈیا نمائندے یا عام شخص کو ہسپتال میں کوریج کرنے اور میڈیا پر خبر نشر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی.
ضلع چارسدہ کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ایم ایس جہانزیب خان کی جانب سے ہسپتال میں جگہ جگہ بینرز آویزاں کی گئی ہے جس پر عام افراد اور میڈیا نمائندوں کو خبردار رکھنے کے لئے لکھا گیا ہے کہ "تمام الیکٹرانک پرنٹ میڈیا (اخبارات ٹی وی چینلز) سرکاری / پرائیوٹ ہسپتال میں کوئی بھی نیوز رپورٹر یا کوئی بھی عام شخص موبائل سے ویڈیو یا تصاویر بنانے کے مجاز ہے نہ ہسپتال کے حوالے خبر نشر کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، مریض شکایات کی صورت میں صرف ہیلتھ ڈپارٹمنٹ یا انتظامیہ کو آگاہ کرسکتے ہیں. ہسپتال انتظامیہ کیخلاف خبر چلانے والے افراد کیخلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے گی.”
واضح رہے کہ رواں ماہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں بچی کی پر اسرار طور پر موت واقع ہوئی تھی جس کے بعد بچی کے والدین نے وزیر صحت اور ایم ایس کو بچی کی موت کا ذمہ دار ٹھرایا تھا جبکہ بچی کے والد نے الزام عائد کیا تھا کہ بچی کو اکسیجن نہ ملنے پر انکی موت واقع ہوگئی تھی.
دوسری واقع ہسپتال میں غیر ضروری ایکسرے کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی جس سے مریض پرائیوٹ لیبارٹریز میں چار سو روپے سے لیکر پانچ سو روپے تک ایکسرے کرانے پر مجبور ہوگئے تھے جس کے لئے لواحقین اپنے مریض سٹریچر پر باہر لے جاتے تھے۔ جبکہ تیسرا واقع ہسپتال کے لئے مختص ایکسپریس لائن سے چارسدہ ہسپتال اور ڈی سی آفس چارسدہ کو بجلی فراہم کردی تھی۔
ذرائع کے مطابق ہسپتال ایم ایس چارسدہ نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے ڈپٹی کمشنر سے ذاتی تعلقات کی بناء پر ایکسپریس لائن سے بجلی کی فراہمی کے احکامات جاری کئے جبکہ ساتھ میں چارسدہ جیل کو بھی اسی لائن سے بجلی دی گئی ہے.
واضح رہے کہ مذکورہ واقعات کو میڈیا او سوشل میڈیا پر کافی کوریج ملی تھی جس کی وجہ سے عوام نے ہسپتال کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جبکہ ہسپتال انتظامیہ نے اسی وجہ سے ہسپتال میں میڈیا کوریج پر پابندی عائد کردی ہے۔
صحافی کیا کہتے ہیں ؟
اس حوالے سے مشال ریڈیو کے ساتھ کام کرنے صحافی شبیر جان کا کہنا ہے کہ اگر ہسپتال انتظامیہ اس بات پر میڈیا کوریج پر پابندی لگا دیں کہ جہاں پر خواتین واڑدز ہے انکی اندر اگر کوئی صحافی ویڈیو بنا رہا ہے تو پہلے انتظامیہ سے انہیں اجازت لینا چاہئے اگر انتظامیہ اس حوالے سے اجازت نہ بھی دیں تو وہ انتظامی اور قانونی حد تک پابندی لگا سکتی ہے۔ لیکن ہسپتال میں ایسے مسائل جو عوام کیساتھ وابستہ ہو اور انکی کوریج کرنا لازمی ہو تو اسی طرح کے مکمل طور پر کوریج کی بندش اور صحافی کیخلاف قانونی کاروائی کرانا یہ ایک غیر قانونی فعل کے مترادف ہے۔
انکا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے آنے سے صحافیوں پر پابندیاں لگانا اور انکو ہراساں کرنا کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ اب معمول بن چکا ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی لحاظ علی نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ مختلف اوقات میں ہسپتال انتظامیہ اور صحافیوں کی مابین تلخ کلامی کے واقعات سامنے آئے ہیں. انہوں نے کہ کہ سال 2014 سے پہلے پشاور کے ہسپتالوں میں میڈیا نمائندے مختلف وارڈز میں جاکر ویڈیو رپورٹس بنواتے تھے لیکن بعد میں حکومت کی جانب سے ان پر پابندی عائد کردی گئی۔ جس کے بعد ایک ضابطہ اخلاق بنایا گیا جسے کے بعد میڈیا ہسپتال میں کوریج کرنے سے پہلے انتظامیہ سے اجازت لے گی۔
انکا کہنا تھاکہ ہسپتال میں اگر انتظامیہ کی جانب سے کوئی غفلت بھرتی گئی یا مریضوں کے مسائل کی بات ہو تو میڈیا نمائندوں کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ اندر کی خبر کو باہر نکال کر نشر کریں۔
صحافیوں کیخلاف کورٹس میں ہونے والی قانونی کاروائیاں
لحاظ علی کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں اب بھی زیادہ تر صحافیوں کے کیس زیر سماعت ہے جو ادارے کیخلاف سچ بولتے ہیں تو انکو متعلقہ اداروں کی جانب سے ہراساں کیا جاتا ہے اور انکو تحریری نوٹسس ملنے شروع ہوجاتے ہیں۔ جبکہ حافی کا کام ہے کہ وہ صحافت کے ضابطہ اخلاق کے اندر کام کریں اور اندر خی خبر باہر نکالیں نہ کہ وہ کسی ادارے میں فریق کا کردار ادا کریں۔