کوئی ریلیف نہیں، بجٹ نے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا
نشاء عارف
پشاور کی 56 سالہ زینب بی بی نے سالانہ بجٹ سے ناخوش ہیں، کہتی ہیں ”تنخواہوں میں اضافہ نا کرتے لیکن حکومت اس مہنگائی کا سیلاب تو روک لیتی یا کوئی سدباب ڈھونڈھ لیتی۔”
حال ہی میں سال 22-2021 کا سالانہ بجٹ پیش کیا گیا جس سے کوئی خوش اور کوئی ناخوش دکھائی دے رہا ہے،
کلثوم، جو ایک سرکاری سکول میں پڑھاتی ہیں، اس سالانہ بجٹ سے کافی حد تک مطمئن ہیں اور کہتی ہیں کہ وفاق کی 25 فیصد سمیت صوبائی حکومت نے 37 فیصد سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کیا ہے جو پاکستان کی موجودہ معاشی حیثیت کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے کیونکہ اگر حکومت پچھلے سال کی طرح اس سال بھی تنخواہوں میں اضافہ نا کرتی تو ہم حکومت کا کیا بگاڑ لیتے۔
آج کل پاکستان میں بجٹ پر تبصرہ بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے اپنی طرف سے یہ بجٹ ایک عوامی بجٹ ظاہر کیا ہے لیکن پاکستان میں بیشتر افراد کام کرتے ہیں، کوئی سرکاری ملازم ہے تو کوئی پرائیویٹ کام کرتا ہے اور بعض افراد کا اپنا ذاتی کاروبار ہے، اگر بجٹ پر بات کی جائے تو حکومت پاکستان کا یہ کہنا ہے کہ کورونا وباء کے دوران یہ بجٹ پیش کرنا ان کی حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔
جس دن حکومت پاکستان نے بجٹ پیش کیا تو اس میں انہوں نے بہت سی چیزیں سستی کرنے کا دعویٰ کیا لیکن صرف ایک چیز کا ذکر اگر کیا تو وہ مرغی تھی، بجٹ میں کہا گیا کہ مرغیاں بھی سستی ہو رہی ہیں، بجٹ سے ایک دن پہلے مرغی کی قیمت 186 روپے کلو تھی جو آج کل 231 تک پہنچ گئی ہے لیکن مہنگائی کا تناسب اس سے کئی گنا زیادہ ہے، % 25 وفاق اور 37 فیصد صوبائی اضافہ کی مثال ایسی ہے جیسے آ ٹے میں نمک۔
بعض سرکاری ملازمین کا کہنا ہے کہ حکومت کو مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ کرنا چاہیے تھا، بہرحال جو بھی ہو پر اس تھوڑے سے اضافہ سے سرکاری ملازمین کا بوجھ تھوڑا بہت تو کم ہو جائے گا لیکن اس کے برعکس پرائیویٹ ملازمین اور کاروباری طبقہ کے افراد کافی متاثر ہوئے ہیں، خاص طور پر پرائیویٹ ملازمین جن میں بعض افراد کارخانوں، فیکٹریوں یا پرائیویٹ سکولوں میں کام کرتے ہیں۔
کورونا وباء کی وجہ سے ان کے ادارے بند تھے اور حکومت پاکستان نے بجٹ میں ایسے خصوصی افراد کے لیے کوئی بھی اعلان نہیں کیا۔
حکومت پاکستان نے بجٹ میں مزدور کی کم سے کم اجرت 21000 تو مقرر کر دی ہے مگر اس کو پوچھنے والا کوئی نہیں یے صرف اور صرف کاغذ تک محدود ہے کیونکہ سرکاری ملازمین تو کورونا وباء کے دوران اپنی تنخواہیں وصول کرتے رہے مگر اکثر پرائیویٹ ادارے ایسے تھے جنہوں نے اپنے اسٹاف کو فارغ کر دیا تھا يا تنخواہ میں کافی کٹوتی کر کے دیتے رہے، ایسے افراد کے لیے حکومت پاکستان نے کوئی خصوصی پیکج اناؤنس نہیں کیا اور مہنگائی اتنی زیادہ کر دی ہے کہ ان کیلئے اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے کیونکہ دال، چاول، گھی، چینی وغیرہ پچھلے سال کے مقابلے میں ڈبل نرخ پر ہو گئے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ بجٹ میں ایسے افراد کے لیے وظیفہ مقرر کرے تاکہ ان کو ضروریات زندگی آسانی سے میسر ہو سکیں۔