شوہر کا بیوی پر تشدد، متاثرہ خاتون قانون سے کیا مدد لے سکتی ہے؟
خالدہ نیاز
‘گھریلو تشدد کے بل میں ایک بات پہ مجھے اعتراض تھا کہ اگر ایک عورت عدالت میں تشدد کو ثابت نہ کرسکے تو اسے 50 ہزار روپے کا جرمانہ دینا ہوگا میں نے اس میں یہ ترمیم دی کہ یہ کس طرح ممکن ہوگا ہمارے معاشرے میں ایک عورت کے لیے کہ وہ تشدد کو ثابت کرے عدالت میں’
یہ کہنا ہے عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والی صوبائی اسمبلی کی ممبر شگفتہ ملک کا۔ ٹی این این کے ساتھ خصوصی بات چیت کے دوران شگفتہ ملک نے خیبرپختونخوا میں منظور شدہ گھریلو تشدد بل کے حوالے سے بتایا کہ صوبے میں اس کا پاس ہونا انتہائی ضروری تھا کیونکہ یہاں خواتین پر بہت زیادہ تشدد ہوتا ہے لیکن اس کے لیے کوئی قانون موجود نہ تھا۔
شگفتہ ملک کا کہنا تھا کہ گھریلو تشدد کے حوالے سے باقی صوبوں میں قوانین موجود ہیں تاہم خیبرپختونخوا میں یہ بل کافی سالوں تک تاخیر کا شکار رہا لیکن ان سمیت باقی خواتین ایم پی ایز نے ہمت نہ ہاری اور آخر کار یہ بل پاس ہوگیا۔
خواتین اگر تشدد ثابت نہ کرسکے تو ان پر جرمانہ لگایا جائے گا
شگفتہ ملک کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس بل پر قریبا 7 سال تک کام کیا ہے’ میں خود وومن کمیشن میں تھی اور اس بل کیلئے ہم نے وومن کمیشن میں کافی کام کیا چونکہ اس سے پہلے بھی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی تو وہ اس میں سنجیدہ نہیں تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ بل پاس ہو تو انہوں نے اسے کونسل آف اسلامک آئیڈیولوجی کو بھیجا اور انہوں نے اس بل کو ریجیکٹ کر دیاپھر ہم نے اس میں کافی کام کیا اور بار بار حکومت سے درخواست کرتے رہے، ہمار اسمبلی کے اندر بھی اور اسمبلی کے باہر بھی کوشش یہی تھی کہ یہ بل جلد از جلد اسمبلی میں آجائے پھر جب ہم نے انہیں مجبور کیا اور کابینہ سے اسے منظور کروایا تب بھی حکومت کا دل نہیں تھا اس بل کو پاس کرنے کا لیکن ہم نے بھی ہمت نہ ہاری’ ایم پی اے نے بتایا۔
یہ بھی پڑھیں: اگر شوہر کے خلاف تھانے جاؤں گی تو پھر کہاں رہوں گی؟
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پھر جماعت اسلامی کے ایک ممبر نے اس بل کو منظور کرنے کی درخواست کی کہ اس بل کو اسمبلی میں لایا جائے لیکن کہا گیا کہ اس بل کو دوبارہ کونسل بھیجیں جب بل واپس آیا تب بھی اس پر انکو تحفظات تھے کیونکہ اس میں چند باتیں ایسی تھی جس سے خواتین کو فائدہ ملنے کی بجائے نقصان ملنے کا خدشہ تھا جیساکہ ان پر 50 ہزار روپے لکا جرمانہ لگنا وغیرہ۔
نفسیاتی دباو جسمانی تشدد سے بڑھ کر ہوتا ہے
شگفتہ ملک نے کہا کہ جرمانے والی بات پہ انہوں نے اعتراض کیا کہ خواتین کا بل ہے اور اس میں اپ نے عورتوں کو جرمانہ کیا ہے تو اس پر حکومت انکے ساتھ راضی ہوگئی۔
‘ اس کے علاوہ بل میں تشدد اس کو کہا گیا جب ایک خاتون کے جسم پر نشانات موجود ہو تو ضروری نہیں کہ ہر تشدد کے نشانات جسم پر موجود ہو اس کے علاوہ نفسیاتی دباو جسمانی تشدد سے بڑھ کر ہوتا ہے، جنسی تشدد بھی ہوتا ہے ہم نے کہا کہ اس میں یہ سب بھی شامل کرلیں’ شگفتہ ملک نے کہا۔
عوامی نیشنل پارٹی کی ایم پی اے نے یہ بھی بتایا کہ اس بل کے تحت جو کمیٹی انہوں نے منتخب کی تھی ضلعی سطح پر یا گراس روٹس لیول پر اس میں خواتین کی نمائندگی نہیں تھی تو اس میں انہوں نے یہ ترمیم کی کہ عورتوں کی نمائندگی زیادہ ضروری ہے کیونکہ جب کوئی شکایت آتی ہے تو ایک عورت ہی عورت کی مسلئے کو بخوبی جانتی ہے اسلئے چاہیئے ہے کہ عورتوں کو شامل کیا جائے۔
انہوں نے اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ اس بل سے بہت زیادہ تبدیلی آئے گی خاص کر وہ مرد جو عورت کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں تو جب انہیں یہ پتہ چلے گا کہ عورت پر تشدد کرنے پر سزا یا جرمانہ عائد ہوگا تو اس جرم میں کمی آئے گی لیکن اس کے لیے قانون کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی بھی بہت ضروری ہے کیونکہ اکثر قانون پاس ہوجاتے ہیں مگر لوگوں کو اسکے بارے میں آگاہی نہیں ہوتی۔
گھریلو تشدد بل کیا ہے؟
یاد رہے خیبرپختونخوا اسمبلی میں خواتین پر گھریلو تشدد کی روک تھام کا بل رواں برس جنوری میں منظور کیا گیا ہے جس کے تحت خواتین پر تشدد کرنیوالے کیخلاف پانچ سال تک قید کی سزا ہوگی۔ بل میں کہا گیا ہے کہ معاشی، نفسیاتی و جنسی دباؤخواتین پر تشدد کے زمرے میں آئیں گے جبکہ بل کے تحت ضلعی تحفظاتی کمیٹی بنائی جائے گی، کمیٹی متاثرہ خاتون کو طبی امداد،پناہ گاہ، مقول معاونت فراہم کرے گی۔
بل کے مطابق گھریلو تشدد واقعات کی رپورٹ کیلئے ہیلپ لائن قائم کیا جائے گا، تشدد پر15دن کے اندر عدالت میں درخواست جمع کرائی جائے گی اور عدالت کیس کا فیصلہ 2ماہ میں سنانے کی پابندہوگی۔ بل میں کہا گیا عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی پر بھی 1سال قید اور 3لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔