پشاور میں گرلز ہاسٹلز کو چرس، آئس پہنچتی کیسی ہے؟
خالدہ نیاز
‘میں اس وقت نشے کی عادی ہوگئی جب میں یونیورسٹی میں پڑھتی تھی، میرے دوستوں نے مجھے مشورہ دیا کہ نشہ شروع کردو یہ تمہیں پڑھائی میں بہت مدد دے گی’
یہ کہنا ہے پشاور سے تعلق رکھنے والی طالبہ معصومہ ( فرضی نام) جو منشیات کی عادی رہ چکی ہے اور ابھی اس کا علاج جاری ہے۔
‘ جب میں نے 2015 میں نشہ کرنا شروع کیا تو مجھے اس سے بہت سکون ملا کچھ عجیب ہی محسوس ہوتا تھا جیسے میں بہت ہرسکون ہوگئی ہوں لیکن کچھ عرصہ بعد اس کا وہ مزہ نہیں رہا جو پہلے تھا’ معصومہ نے بتایا۔
ٹی این این کے ساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران معصومہ نے بتایا کہ شروع میں انکے گھر والوں کو کچھ پتہ نہ چلا کہ کیونکہ وہ ناک کے ذریعے ہیروئن کا نشہ کرتی تھی اور جو لوگ اس کو ہیروئن لاکر دیتے تھے وہ اسے ایسا کہتے تھے تاکہ اس کے گھر میں پتہ نہ چل سکے۔
ہیروئن کو چھوڑو آئس نشہ اس سے بھی بہتر ہے
معصومہ نے کہا کہ جب وہ ہیروئن کی مکمل عادی ہوگئی تب انکی ایک دوست نے انکو بتایا کہ ہیروئن کو چھوڑو آئس کا نشہ شروع کرو کیونکہ یہ ہیروئن سے بھی اچھا نشہ ہے تو انہوں نے آئس کا نشہ بھی شروع کردیا لیکن اسکی وجہ سے انکی صحت خراب ہونے لگی، انکے چہرے پہ دانے نکل آئے، جسم کمزور ہوگیا تھا اور میرے والدین کو بھی پتہ چل گیا تھا کہ انکی بیٹی نشے کی عادی ہوچکی ہیں۔
معصومہ کے مطابق والدین کو پتہ چل جانے کے بعد وہ بہت پریشان ہوگئے کہ اب بیٹی کا علاج کہاں سے اور کیسے کروائیں گے بہت سوچ بچار کے بعد آخر وہ اس کو دوست فاؤنڈیشن لے آئے جہاں انکا علاج شروع ہوا۔
تعلیمی اداروں میں منشیات کا ملنا بہت آسان کام ہے
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کا ملنا بہت آسان کام ہے ہر دوسرا تیسرا شخص ڈرگ سپلائر ہوتا ہے اور انکے پاس جیب میں پڑا ہوتا ہے نشہ۔ انہوں نے کہا کہ اب تو اور بھی آسان ہوگیا ہے یہ کام بس فون کرو اور آئس اور ہیروئن پہنچ جاتا ہے یونیورسٹی میں۔
معصومہ کہتی ہیں کہ منشیات کی عادت نے انکی اچھی بلی زندگی کو بدل کے رکھ دیا وہ پڑھائی میں بہت اچھی تھی لیکن اس لت میں پڑھنے کے بعد انکی پڑھائی ختم ہوگی رشتہ داروں نے انکے گھر آناجانا بند کردیا، انکی اپنی صحت تو خراب ہوئی ساتھ میں انکے والدین کی عزت بھی خراب ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ انکے والدین نے انکو ہرقسم کی سہولت دی تھی’میرے پاس اپنی گاڑی تھی اور اسی گاڑی میں میرے ساتھ یہی دوست ہوا کرتے تھے جنہوں نے مجھے اس نشے پہ لگایا تھا اور میں نشہ بھی اسی گاڑی میں کرتی تھی’
پاکستان میں منشیات سے متاثرہ افراد کی تعداد کتنی ہے؟
پاکستان میں منشیات سے متاثرہ افراد کی مصدقہ معلومات تو موجود نہیں لیکن امریکی رسالے ‘فارن پالیسی’ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 80 لاکھ کے قریب افراد منشیات کے استعمال میں ملوث ہیں جن میں سے ہر روز 700 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، رسالے کے مطابق یہ دہشتگردی میں روزانہ کے حساب سے جانی نقصان سے زیادہ شرح اموات ہے۔
سال 2013 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں مشیات کے عادی افراد کی تعداد 67 لاکھ بتائی گئی تھی جبکہ بحالی کے اداروں میں کام کرنے والے ماہرین کے مطابق اس وقت ملک میں 92 لاکھ افراد منشیات کی لت میں مبتلا ہیں جن میں بیشتر کی تعداد خیبر پختونخوا سے ہے۔
معصومہ کہتی ہے کہ پختون معاشرے میں جب ایک لڑکی منشیات کی عادی ہوجاتی ہے تو اسکے والدین بہت پریشان ہوجاتے ہیں کیونکہ انکی جو عزت ہوتی ہے معاشرے میں وہ داؤ پر لگ جاتی ہے۔
معصومہ نے کہا کہ انہوں نے یونیورسٹی جانا چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتی کہ دوبارہ منشیات کی عادی ہوجائے کیونکہ یونیورسٹی میں زیادہ ترطالبعلم منشیات کا شکار ہوجاتے ہیں اور انہوں نے علاج کے دوران جن تکالیف کا سامنا کیا ہے وہ بیان بھی نہیں کرسکتی۔
انہوں نے باقی لڑکیوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ کبھی بھی منشیات کا استعمال نہ کریں اور اپنی اور گھر والوں کی زندگی سے پیار کریں کیونکہ منشیات تباہی ہے۔
شائستہ ناز دوست ویلفیئر فاونڈیشن کے ساتھ پچھلے 18 سال سے پروگرام منیجر اور کلینکل سائیکالوجسٹ کے حیث پہ کام کررہی ہیں۔ وہ منشیات کے عادی مریضوں کا علاج اور اس کے تدارک کے لیے کافی کام کرچکی ہیں۔
خواتین کیوں منشیات کا شکار ہورہی ہیں؟
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ اب خواتین میں بھی منشیات کا رجحان بڑھتا جارہا ہے جس کی مختلف وجوہات ہیں، ایک وجہ تو یہ ہے کہ کچھ خواتین سیلف میڈیکیشن کرتی ہیں یعنی ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتی اور خود ہی ٹیبلٹ کا استعمال کرتی ہیں یا کچھ خواتین کو نیند کے مسائل ہوتے ہیں جس کے بعد وہ آرام کی گولیاں لینا شروع کردیتی ہیں اور اس طرح پھر وہ اس کی عادی ہوجاتی ہے، اس کے علاوہ کچھ مرد جو نشے کے عادی ہوتے ہیں وہ اپنی خواتین کو بھی نشے پہ لگادیتے ہیں تاکہ انکو کوئی منع کرنے والا نہ ہو، ایک وجہ اس کی یہ بھی ہے کہ بعض نفسیاتی دباؤ کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور گھریلو مسائل سے چھٹکارا پانے کے لیے منشیات کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں منشیات کی عادی خواتین کھل کر اس کا استعمال نہیں کرتی تو وہ علاج کی جانب بھی نہیں آتی اور جب انکی صحت بہت زیادہ خراب ہوجاتی ہے تو پھر وہ علاج کے لیے آجاتی ہیں لیکن عموما انکی کوشش ہوتی ہے کہ ان کا راز راز رہے۔
شائستہ ناز نے اس بات کو تسلیم کیا کہ طالبات میں بھی منشیات کا رجحان زیادہ ہوگیا ہے کیونکہ انکی رسد ہے ہیروئن اور باقی نشوں تک۔
منشیات سے متاثرہ افراد کا علاج تین مراحل میں کیا جاتا ہے
شائستہ ناز کا کہنا ہے کہ انکے ادارہ 1992 سے کام کررہا ہے انکے پاس زیادہ تر مریض مرد ہوتے ہیں لیکن خواتین کو بھی گھر پر علاج کی سہولت مہیا کی جاتی ہے کیونکہ خواتین سنٹر میں علاج کرنے بہت کم تعداد میں آتی ہیں۔ شائستہ ناز نے کہا کہ پچھلے پانچ، چھ سالوں میں انکے پاس قریبا 40 خواتین علاج کے لیے آئی ہیں۔
شائستہ ناز کا کہنا ہے کہ علاج کے تین مراحل ہوتے ہیں، پہلے مرحلے میں مریضوں کو آگاہی دی جاتی ہے، دوسرے مرحلے میں انکو سنٹر میں زیر علاج رکھا جاتا ہے، شروع کے 15 دنوں میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ مریض منشیات کا استعمال بالکل ترک کردے اور انکو جو تکالیف سامنے آئے ذہنی اور جسمانی وہ اس کا مقابلہ کرسکیں، سولہویں دن سے 90 روز تک انکی زندگی کے مختلف پہلووں کو دیکھا جاتا ہے کہ کس طرح منشیات کے استعمال نے انکی زندگی کو متاثر کیا ہے، انکی کونسلنگ کی جاتی ہے ، مختلف سکلز دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ زندگی کی طرف دوبارہ لوٹ سکیں۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تین مہینے کے بعد جب وہ کمیونٹی میں واپس چلے جاتے ہیں تو دو سال تک انکی کونسلنگ جاری رہتی ہے انکے ساتھ ٹیلیفونک بات بھی ہوتی ہے اور سٹاف اہلکار انکے گھر بھی جاتے ہیں، ماہر نفسیات بھی انکی رہنمائی کرتے ہیں۔
شائستہ ناز کا کہنا ہے کہ منشیات کی روک تھام کے لیے نوجوان نسل میں آگاہی کی ضرورت یے۔ ایک دوسرے کو وقت دینا چاہیئے اور آپس میں رابطے کے فقدان کو کم کرنا چاہیے کہ خاندان کے سب لوگ ایک دوسرے کو اپنے مسائل بتاسکیں۔
آئس نشہ طورخم بارڈر کے ذریعے پاکستان منتقل کیا جاتا ہے
ضلع خیبرکے ایک مقامی صحافی نے ٹی این این کو بتایا کہ طورخم بارڈر کے ذریعے عرصہ دراز سے آئس اور باقی منشیات کی سمگلنگ ہورہی ہے۔ انہوں نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ آئس نشہ ایران سے افغانستان آسانی سے منتقل ہوتا ہے اور پھر یہی آئس نشہ طورخم بارڈر کے ذریعے پھر لنڈی کوتل اور وہاں سے خیبرپختونخوا کے مختلف حصوں کو سمگل کیا جاتا ہے۔
صحافی نے مزید کہا کہ بارڈر پر حکام بھی ان سمگلروں سے ملے ہوتے ہیں کیونکہ انکو بھی اس میں اپنا حصہ ملتا ہے اور یوں وہ آسانی سے آئس نشہ اس پار سمگل کرلیتے ہیں۔ صحافی کا کہنا ہے کہ لنڈی کوتل بازار میں اب بھی بہت سارے جگہیں موجود ہیں جہاں آئس نشہ اور باقی منشیات وافر مقدار میں موجود ہے لیکن پولیس انکے خلاف کاروائی نہیں کرتی اور یوں اس نشے نے کئی نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
کیا آئس نشہ روکنے کا کوئی قانون ہے؟
گزشتہ سال اگست میں خیبر پختونخوا حکومت نے منشیات کی روک تھام کے قانون ‘خیبر پختونخوا نارکوٹیکس کنٹرول ایکٹ 2019’ میں ترمیم کر کے آئس جیسے مہلک نشے کی سزا اور جرمانے کو شامل کیا ہے۔
اس قانون کے مطابق آئس کرسٹل کی فروخت میں ملوث افراد کو سزائے موت اور استعمال کرنے والے کو سات سال تک قید کی سزا دی جائی گی جبکہ منشیات کی رقم سے جائیدادیں اور عمارتیں بنانے والوں کو 25 سال تک قید کی سزا بھی شامل ہے۔