اب میں ناچ کر کمانے اور محنت کے کمانے میں اصل فرق جان گئی ہوں
خالدہ نیاز
‘جب میں ناچتی تھی تو بھی پیسے کماتی تھی اور اب میں بوتیک سے بھی پیسے کماتی ہوں لیکن جو برکت ان پیسوں میں ہے وہ ناچ گانے والے پیسوں میں نہیں ہوتی تھی’
یہ کہنا ہے پشاور سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا پارو کا جنہوں نے کچھ عرصہ قبل ناچ گانے کو خیرباد کہہ دیا ہے اور اب پشاور صدر میں اپنا بوتیک چلا رہی ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران انہوں نے بتایا کہ جب وہ ناچتی تھی تو لوگوں کا رویہ اچھا نہیں ہوتا تھا اب جب وہ بوتیک چلاتی ہے تو لوگوں کا رویہ اسکی طرف بدل گیا ہے’ پہلے میں خود بھی لوگوں سے ڈرتی تھی لیکن اب میں بہت پُراعتماد طریقے سے گھومتی ہوں اور لوگوں کا سامنا کرتی ہوں’
تعلیم حاصل نہ کرنے کا بہت دکھ ہے
پارو نے کہا کہ انہوں نے تعلیم حاصل نہیں کی جس کا انکو اب بہت دکھ ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ پڑھی لکھی ہوتی تو شاید آج ایک اس سے زیادہ پُر اعتماد ہوتی اور اچھے مقام پر ہوتی۔
پارو نے تعلیم کیوں حاصل نہ کی اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اس نے کہا کہ گھر والوں کی سختی کی وجہ سے وہ سکول نہیں جاتی تھی’ میرے گھر والے مجھ پر سختی کرتے تھے تو میں انکو دکھ دینے کے لیے سکول نہیں جاتی تھی کیونکہ مجھے لگتا تھا اس طریقے سے میں ان سے انکی خوشی چھین سکتی ہوں کہ مجھے تعلیم دلانے سے انکو خوشی ملتی ہے لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ میں اپنے ساتھ کتنا برا کررہی ہوں’ پارو نے افسردہ ہوتے ہوئے کہا۔
پارو نے کہا کہ انکو بچپن سے ہی بوتیک کا شوق تھا اور قریبا پچھلے 4 سال سے وہ بوتیک چلا رہی ہیں پہلے گھر میں چلاتی تھی لیکن اب 6 مہینے ہوگئے ہیں کہ وہ مارکیٹ میں اپنا بوتیک چلا رہی ہیں۔ پارو کا کہنا ہے کہ گھر میں وہ مردوں کو نہیں چھوڑتی تھی لیکن اب مارکیٹ میں انکے پاس مرد خریدار بھی آتے ہیں، خواتین بھی اور خواجہ سراء بھی۔ پارو کے پاس بوتیک میں کپڑوں کے علاوہ اعلیٰ کوالٹی کا میک اپ کا سامان اور جیولری بھی ہے جس کی وجہ سے لوگ ان سے خریداری میں دلچسپی لیتے ہیں۔
پاور نے تو ناچ گانے کو خیرباد کہہ دیا ہے اور اب ایک بوتیک چلا رہی ہیں تاہم ہمارے معاشرے میں زیادہ تر خواجہ سراء محفلوں کی رونقیں آباد کرکے اپنی زندگی کی شامیں گزار رہے ہیں۔
خواجہ سراء کیوں ناچنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرتے؟
خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے سرگرم ادارے بلیو وینز ایوب خان نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ خواجہ سراء اس لیے صرف ناچ گانے کا کام کرتے ہیں کیونکہ انکو والدین بچپن میں ہی گھروں سے نکال دیتے ہیں اور جب گھر سے نکل جاتے ہیں تو وہ تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں جسکی وجہ سے وہ پھر نوکریوں کے لیے اپلائی نہیں کرسکتے اور باقی جو سخت کام ہوتے ہیں محنت مزدوری تو وہ خواجہ سراء کرنہیں سکتے۔
ایوب خان نے کہا کہ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے بھی انکے روزگار اور تعلیم پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی اور نوکریوں میں بھی انکے لیے جو کوٹہ ہوتا ہے تو تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے اور کوٹہ بھی کافی کم ہے۔
ایوب خان کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ انکو ہنر وغیرہ بھی سکھایا جائے تو اس سے وہ برسر روزگار ہوسکتے ہیں اور ملک کی ترقی میں بھی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
لیکن خواجہ سراء صوبیا خان کا کہنا ہے کہ خواجہ سرا خود بھی ناچنے کے علاوہ باقی کوئی کام نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ کم وقت میں زیادہ پیسے کمانے کے عادی ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پشاور میں دو ایسے خواجہ سراؤں کی مثال موجود ہے جن کو باعزت نوکری ملی تھی تاہم کچھ دن دفتر جانے کے بعد انہوں نے خود ہی نوکری کو خیرباد کہہ دیا۔
صوبیا خان کا کہنا ہے کہ ایک خواجہ سرا کو نادرا میں اور دوسری کو ہیومین رائٹس میں نوکری ملی تھی تاہم انہوں نے یہ کہہ کر نوکری کو خیرباد کہہ دیا کہ ایک تو وہ صبح سویرے اٹھ نہیں سکتی اور دوسری بات یہ ہے کہ انکو کام کی جگہوں پہ لوگوں کی جانب سے وہ عزت نہیں ملتی مردوں اور خواتین کو ملتی ہے۔
پروگرامز میں لوگ عزت نہیں دیتے تھے
پاور کہتی ہیں کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ بہت امیر ہے اس کے پاس گاڑی ہوگی تو کچھ ان سے پیسے وغیرہ بھی مانگے آتے ہیں تو اپنی حیثیت کے مطابق غریب لوگوں کے ساتھ مدد بھی کرتی ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے انکو دلی سکون ملتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گھر والے انکو ایک حد تک سپورٹ کرتے ہیں کیونکہ پختون معاشرہ ہے اور یہاں خواجہ سراؤں کے حوالے سے لوگ کی سوچ وہی پرانی ہے لیکن وہ خود باہمت ہے اور گھر والوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتی، ہر وہ کام کرسکتی ہیں جو ایک مرد اور خواتین کرسکتے ہیں۔
پارو کا کہنا ہے کہ معاشرے کے لوگوں کا رویہ خواجہ سراؤں کے ساتھ بالکل بھی ٹھیک نہیں ہوتا’ جب لوگوں کے گھروں میں خوشی ہوتی ہے تو خواجہ سراؤں کو منت سماجت کرکے بلاتے ہیں لیکن جب وہاں پہنچ جاتے ہیں تو لوگوں کی آنکھیں بدل جاتی ہے پروگرام کے بعد کوئی پانی کا بھی نہیں پوچھتا اسی لئے تو میں ناچنا اور پروگرامز میں جانا چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہاں عزت نہیں ہوتی’
خواجہ سراؤں کے دوست ان پر کیوں تشدد کرتے ہیں؟
پارو کا کہنا ہے کہ خواجہ سراء بھی انسان ہے اور اسی مٹی کے باشندے ہیں جو انہیں انسانوں سے پیدا ہوئے ہیں کسی مشین سے تو پیدا نہیں ہوئے لیکن جب لوگ انکی بے عزتی کرتے ہیں تو پولیس بھی ان کا ساتھ نہیں دیتی۔
خواجہ سراؤں پر تشدد کے حوالے سے پارو نے کہا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ خواجہ سراؤں پر عموما انکے دوست تشدد کرتے ہیں جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ دوستی کرتے وقت خواجہ سراء خود کو عورت سمجھنے لگتی ہے اور اس کا دوست اسکو کہتا ہے کہ اب تم نے کسی اور سے بات نہیں کرنی اور جب وہ کسی اور سے بات کرلے تو پھر اس کو دوست اس پہ تشدد کرتا ہے اس کے بال کاٹ دیتا ہے لیکن دوستوں کو ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ خواجہ سراء انکی بیوی تو نہیں ہوتی اور وہ ویسے بھی سختی کی وجہ سے گھر چھوڑتے ہیں۔
پارو کہتی ہیں کہ معاشرے کی لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لانے کے ساتھ ساتھ خواجہ سراؤں کو بھی اپنی سوچ میں تبدیلی لانی ہوگی کیونکہ جس طرح انہوں نے اور صوبیا خان نے ناچ گانے کو چھوڑا ہے اور ایک اچھی زندگی گزار رہے ہیں اسی طرح باقی خواجہ سراء بھی محنت مزدوری کرکے کماسکتے ہیں اور عزت کی زندگی گزار سکتے ہیں۔