دریائے سوات تباہی کے دہانے پر، لیکن ذمہ دار کون ؟
شہزاد نوید
ایشیاء کا سویٹزرلینڈ جنت نظیر وادی کی خوبصورتی میں اہم کردار کا حامل دریائے سوات گندگی کی وجہ سے تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا ہے۔
دریائے سوات کا صاف وشفاف پانی گزرتے دن کے ساتھ آہستہ آہستہ آلودہ ہو رہا ہے سوات کے شہر مینگورہ کے ہجوم کوقابو میں رکھنے کیلئے حکومت نے دریائے سوات کے کنارے بائی پاس روڈ بنایا تو سڑک کنارے کئی ریسٹورنٹس اور ہوٹل تعمیرکرلئے گئے اب بائی پاس روڈ فوڈ سٹریٹ کا منظر پیش کر رہے ہیں۔
کالام سے لیکر لنڈا کے تک دریائے سوات کے کنارے بنے ہوٹل اور ریسٹورنٹس کی ساری گندگی دریائے سوات میں ڈالی جارہی ہے۔
ان ریسٹورنٹس اور ہو ٹلوں کے پانی کے نکاس اور گٹرکا پانی براہ راست دریا میں جانے سے دریائے سوات کا پانی آلودہ ہونے لگا، ساتھ ہی ساتھ شہر بھر کاکُوڑا کرکٹ بھی دریا کنارے پھینکا جارہا ہے جس سے گندگی اور تعفن پھیل رہا ہے۔
گندگی سے اگر ایک طرف خوبصورت وادی بدصورت ہوتی جارہی ہے تو دوسری دریائے سوات میں آب حیات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اب تمام تر ہوٹلوں کی گندگی دریا سوات میں ڈالی جاتی ہے جس سے اب دریا میں کوئی نہا بھی نہیں سکتا۔
ماضی میں دریائے سوات کا پانی اس قدر صاف و شفاف تھا کہ اسے پینے کیلئے بھی استعمال کیا جا تا تھا تاہم اب الودہ ہو نے والا پانی انسانوں کے ساتھ ساتھ فصلوں اور آب حیات کیلئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
شہری کہتے ہیں کہ دریا کنارے آباد ہوٹلوں کی انتظامیہ کو اگر دریا میں گندگی ڈالنے سے نہ روکا گیا تو انسانوں سمیت دریا میں موجود مچھلیوں کو بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اب ضلع بھر سے کچرا اکھٹا کر کے مختلف مقامات پر دریائے سوات میں بہایا جاتا ہے ضلعی انتظامیہ رسمی طور پر وقتا فوقتا مختلف ہوٹلز و ریسٹورنٹس کا معائنہ کرتی رہتی ہے اور دریا میں گندگی ڈالنے والوں پر بھاری جرمانے بھی عائد کیے جاتے ہیں لیکن مستقل بنیادوں پر اس مسئلے کا سدباب کرنے میں انتظامیہ مسلسل ناکام ہے۔