کیا آپ کو معلوم ہے شہد کی مکھیوں کی ملکہ کیسے بنتی ہے؟
مولانا خانزیب
ہم ہر روز جو خوراک کھاتے ہیں اس خوراک کے ہر تین لقموں میں سے ایک لقمہ وہ ہوتا ہے جو اس مکھی کی پولینشن سے ہم لوگ حاصل کرتے ہیں۔ بعض پھل جیسے بلیو بیریز، سیب یا چیریز وغیرہ 90% فیصد ان مکھیوں کی پولینیشن پر منحصر ہوتے ہیں۔
شہد کی مکھی اتنی اہم ہے کے یورپین ممالک یا امریکا میں بعض کسان ان مکھیوں کے hives (چھتوں) کو ٹرانسپورٹ کر کے آپنے زرعی فارم وغیرہ پر لاتے ہیں تاکہ ان کی مدد سے آپنی فصلوں کی پولینیشن کروائی جائے۔
شہد کی مکھیوں کے علاوہ باقی کچھ مکھیاں بھی بڑا اہم رول ادا کرتی ہیں اس پولینیشن کے لئیے ہم جو خوراک کھاتے ہیں پھل سبزیاں وغیرہ ان سب کی پولینیشن وغیرہ یہی مکھیاں کرتی ہیں۔
امام شافعی سے سوال کیا گیا رب تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل کیا ہے؟ تو سامنے کوئی شہتوت کا درخت تھا۔ فرمانے لگے بھائی! دور جانے کی ضرورت نہیں یہ شہتوت کا درخت ہے، اس کے پتوں کو ریشم کے کپڑے کھاتے ہیں تو ان کے پیٹ میں ریشم پیدا ہوتا ہے، اس کو ہرنیاں کھاتی ہیں تو کستوری پیدا ہوتی ہے، اس کو شہد کی مکھیاں کھاتی ہیں تو شہد پیدا ہوتا ہے، اس کو اونٹ اور بکریاں کھائیں تو مینگنیاں اور گوبر پیدا ہوتا ہے۔ چیز ایک ہی ہے شہتوت کے پتے، مگر آگے ان میں انقلابات پیدا کرنے والا رب تعالیٰ کے سوا کون ہے؟ تو سمجھنے کیلئے ایک ہی چیز کافی ہے اور نہ سمجھنے والے کے لیے سارے دلائل بےکار ہیں۔
مولانا وحید الدین خان کے بقول شہد کی تیاری ایک بے حد محنت طلب کام ہے۔ بہت سی مکھیاں لگاتار رات دن کام کرتی ہیں تب وہ چیز وجود میں آتی ہے جس کو شہد کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی ایک پھول میں اس کی مقدار بہت تھوڑی ہوتی ہے، بے شمار پھولوں کا رس جمع کیا جاتا ہے تب کہیں یہ ہوتا ہے کہ شہد کی قابل لحاظ مقدار تیار ہو سکے۔
ایک پاونڈ (نصف کلو) شہد تیار کرنے کے لیے شہد کی مکھیوں کو مجموعی طور پر بعض اوقات تین لاکھ میل کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ ایک مکھی کی عمر چند مہینے سے زیادہ نہیں ہوتی اس لیے کوئی ایک مکھی تنہا ایک پاونڈ شہد تیار نہیں کر سکتی خواہ وہ اپنی عمر کا ہر لمحہ پھولوں کا رس جمع کرنے میں لگا دے۔
اس مشکل کا حل شہد کی مکھیوں نے اجتماعی کوشش میں تلاش کیا ہے۔ یعنی جو کام ایک مکھی نہیں کر سکتی اس کو لاکھوں مکھیاں مل کر انجام دیتی ہیں، جو کام ’’ایک‘‘ کے لیے ناممکن ہے وہ اس وقت ممکن بن جاتا ہے جب کہ کرنے والے ’’لاکھوں‘‘ ہوں۔
یہ قدرت کا سبق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ ممکن تھا کہ شہد کے بڑے بڑے ذخیرے زمین پر رکھ دے جس طرح پٹرول اور پانی کے ذخیرے بہت بڑی مقدار میں زمین پر جگہ جگہ موجود ہیں۔ مگر شہد کی تیاری کو اللہ نے ایک بے حد پیچیدہ نظام سے وابستہ کر دیا۔ اس حیرت انگیز نظام کے اندر انسان کے لیے بیشمار سبق ہیں۔ ان میں سے ایک سبق وہ ہے جس کا اوپر ذکر ہوا۔
شہد کی مکھیوں پر تحقیق کرنے والے نوٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مارٹن بینسیک نے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ اور آواز تبدیل کرنے کو ’غیر معمولی قرار دیا تھا۔
محقیقین نے جو مختلف آوز سنی وہ ملکہ کی ہے جو کالونی میں چکر لگاتے ہوئے دوسروں کے لیے اپنی موجودگی کا اعلان کر رہی ہے
سائنسدانوں نے انتہائی حساس نوعیت کے آلات کا استعمال کرتے ہوئے شہد کی مکھیوں کو چھتے کے اندر سُر میں رکھنے والے نغموں کا پتا لگا لیا ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے شہد کی مکھیوں کی ملکہ کیسے بنتی ہے؟ دراصل ہوتا کچھ یوں ہے کہ چھتوں سے باہر جا کر کام کرنے والی مکھیاں خصوصی خلیوں کے اندر انڈوں کو موم سے سیل کرتی ہیں اور پھر شاہی جیلی کھلا کر نئی ملکہ بناتی ہیں۔
ملکہ جب اپنی نشست سنبھالنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے تو بھنبنا کر اس کا اعلان کرتی ہے لیکن اگر ایک ہی وقت میں دو ملکائیں آمنے سامنے ہوں تو وہ اس وقت تک ایک دوسرے سے لڑیں گی جب تک دونوں میں سے ایک یا دونوں مر نہیں جاتیں لہذا جب ایک مکھی انڈے دیتی ہے تو اس کی آواز بدل جاتی ہے لیکن وہ اپنی ساتھی مکھیوں سے کہتی ہے کہ باقیوں کی بھنبھناہٹ رکنے نہ دیں۔ شہد کی مکھیوں کے معاشرے میں تمام فیصلے اجتماعی طور پر لیے جاتے ہیں۔
انسانی زندگی میں کچھ کام ایسے ہیں جن کو ہر آدمی کم وقت میں اپنی ذاتی کوشش سے انجام دے سکتا ہے مگر کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن کو کوئی شخص تنہا انجام نہیں دے سکتا۔ ایسے کام کو واقعہ بنانے کی واحد ممکن شکل وہی ہے جو شہد کی مکھی کی مثال میں نظر آتی ہے۔ یعنی بہت سے لوگ مل کر اسے انجام دیں۔شہد کی مکھی کے حوالے سے بھی بہت سے حقائق سامنے آئے ہیں جو کہ عام لوگوں کے لیے ناصر کے حیران کن ہیں بلکہ اس بات کو بھی واضح کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں ایک پوری سورت شہد کی مکھی کے نام پر کیوں ہے اور اس کو اتنا تفصیل سے کیوں بیان کیا گیا ہے۔
قرآن کریم میں شہد سے متعلق آیات میں مختصر مگر انتہائی جامع طور پرشہد کی مکھی اور شہد کے متعلق معلومات دی گئی ہیں، جن کو مکمل طور پر سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں اس کو شہد کے ماہرین ہی سمجھ سکتے ہیں۔
لیکن شہد کی مکھی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تحقیق کے مطابق 60 سے 80 فیصد انسانی خوراک کی پیداوار شہد کی مکھی کی مرہونِ منت ہے کیونکہ یہ پودوں میں پولینیشن کا کام کرتی ہے جس کی وجہ سے ہی پھل اور سبزیاں پیدا ہوتے ہیں۔
اسی حوالے سے معروف سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کا قول ہے کہ:
"If the bee disappeared off the surface of the globe then man would only have four years of life left. No more bees, no more pollination, no more plants, no more animals, no more man.”
–Albert Einstein —
ترجمہ:
"اگر مکھی دنیا کی سطح سے ختم ہو جاتی ہے تو پھر "انسان کے پاس زندگی کے صرف چار سال باقی رہ جاتے ہیں۔ اگر مکھیاں نہیں ہوں گی تو پولینیشن نہیں ہو گی اور پولینیشن نہ ہونے کی وجہ سے پودے نہیں ہوں گے، جس کی وجہ سے جانور ختم ہو جائیں گے اور پھر انسان بھی ختم ہو جائیں گے۔”
آپ کو اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ قدرت کے اس نظام میں شہد کی مکھی کس قدر اہم ہے۔ جیسے ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے لیے ماہرین کی سرپرستی ضروری ہے اسی طرح شہد کے کام سے متعلق لوگوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اس شعبے کے ماہرین سے تربیت حاصل کریں اور پھر شہد کے کاروبار سے منسلک ہوں۔
ہمارے ملک میں چار اقسام کی مکھیاں پائی جاتی ہیں جس میں تین اقسام قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں جبکہ ایک قسم درآمد شدہ ھائبرڈ نسل سے ہے۔
1_چھوٹی مکھی (Apis Florea)
2_ بڑییاڈومنا مکھی ( Apis Dorsata)
3_پہاڑی_مکھی (Apis cerana)
4_ولایتی_مکھی (Apis Mellifera)
اس میں سے دو اقسام پالتو ہیں جبکہ دو غیرپالتو ہیں۔
1_چھوٹی مکھی (Apis Florea):
یہ غیرپالتو قسم ہے اور میدانی علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ اکثر جھاڑیوں اور باڑوں میں اپنا گھر بناتی ہیں۔ چھوٹی مکھی انتہائی حساس ہوتی ہے، پریشان ہونے پر اگلے ہی دن فرار اختیار کرتی ہے۔ تقریباً ایک سے دو کلوگرام شہد بناتی ہے وہ بھی زیادہ تر اکتوبر میں لیکن بازاروں اور فوڈ فیکٹریوں کے نزدیک ان کے شہد کا معیار خراب ہوتا ہے۔
ایک چھتہ بناتی ہے اور شہد نکالنے کے دوران بروڈ ضائع ہو سکتی ہے کیونکہ شہد چھتے کے بالائی حصے میں ہوتا ہے۔
صبح کو دیر سے کام شروع کرتی ہے اور شام کو جلد چھوڑ دیتی ہے۔ یہ انتہائی چھوٹے پھولوں سے بھی خوراک حاصل کر سکتی ہے۔
موسم گرما میں ان کی افزائش زوروں پر ہوتی ہے لیکن سردی شروع ہوتے ہی اپنا چھتہ چھوڑ دیتی ہیں اور کسی ایسی جگہ پر بیٹھتی ہیں جو سورج کی طرف ہو ، موسم گرما تک تقریباً غیرفعال حالت میں رہتی ہیں۔
یہ قسم نرم مزاج ہوتی ہے لیکن کھلی فضا میں رہنا پسند کرتی ہے اور فرار کا رجحان رکھتی ہے اس لئے مصنوعی گھروں میں پالنا ممکن نہیں۔
2_بڑییاڈومنا مکھی (Apis Dorsata):
یہ بھی غیرپالتو قسم ہے جو درختوں کے تنوں اور شاخوں پر اپنا چھتہ بناتی ہے جو تین سے چھ فٹ لمبا اور چار فٹ چوڑا ہوتا ہے۔ یہ انتہائی محنتی اور تند مزاج ہوتی ہے۔ صبح سویرے کام شروع کرتی ہے اور شام دیر تک کام کرتی ہے۔ ان کا ملکہ جفتی پرواز کے لئے شام کو اڑان بھرتی ہے۔ ملکہ سیاہ ہوتی ہے جبکہ کارکن اور نکھٹو ایک جیسے ہوتی ہیں، نکھٹو کا صرف ڈنگ نہیں ہوتا اور قدوقامت میں تینوں ایک جیسے ہوتی ہیں۔ سالانہ چالیس سے پچاس کلوگرام شہد بناتی ہے۔
یہ بھی موسمی حالت چھوٹی مکھی کی طرح گزارتی ہے۔ ان کا غول انتہائی بلندی پر پرواز کرتی ہے اور کبھی کبھی بہت لمبا سفر طے کرتی ہے۔ یہ قسم بھی فرار کا رجحان رکھتی ہے اور کھلے فضا میں رہنا پسند کرتی ہے اس لئے یہ بھی مصنوعی گھروں میں نہیں پالی جا سکتی۔
3_پہاڑی_مکھی (Apis Cerana):
اس قسم کو مشرقی مکھی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پالتو قسم ہے جو زیادہ تر پہاڑی علاقوں میں پائی جاتی ہے تاہم میدانی علاقوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ پہاڑی علاقوں کے لوگ انہیں دیواروں میں بنائے گئے مخصوص مصنوعی گھروں میں پالتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ درحتوں کے کھوکھلے تنوں اور غاروں میں بھی اپنا چھتہ بناتی ہے۔ پریشان ہونے پر جلد نقل مکانی کرتی ہے۔ شہد کی یہ مکھی انتہائی محنتی ہوتی ہے۔ صبح سویرے کام شروع کرتی ہے اور شام دیر تک کام کرتی ہے۔ شدید سرد علاقوں کے علاوہ مصنوعی خوراک کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے۔ شہد کی یہ مکھی گرمی اور سردی دونوں میں اچھی طرح رہ سکتی ہے۔ عام حالت میں شریف ہوتی ہے لیکن شہد نکالنے کے دوران سخت مزاحمت کرتی ہے۔ اس کی زبان یعنی سونڈ (Trunk) باقی مکھیوں سے چھوٹی ہوتی ہے اس لئے ایسا پھول جس کی رس گہرائی میں ہو، نہیں چوس سکتی۔ شہد انتہائی گاڑھا ہوتا ہے اور سالانہ سات کلو گرام شہد بناتی ہے۔ جدید طریقے سے پالنے پر شہد کی پیداوار پندرہ سے بیس کلو گرام ہو سکتی ہے۔
یہ مصنوعی گھروں میں پالی جاسکتی ہے لیکن اس کی چھتے نرم ہوتے ہیں اور نقل مکانی کی رجحان رکھتی ہے اس لئے بڑے پیمانے پر پالنا مشکل ہوتا ہے۔
4۔ ولایتی_مکھی (Apis Mellifera):
یہ بھی پالتو قسم ہے جو تقریباً پورے دنیا میں میں پالی جاتی ہے۔ اِپس ملِفرا میں بھی علاقوں کی نسبت سے مختلف اقسام ہیں جس میں پانج قابل ذکر ہے۔
اِپس ملِفرا کی ذیلی اقسام:
خالص اقسام:
1_African(A. M. Scutellata)
2_Italian(A. M. Linguistica)
3_Earopean_Dark_Bee(A. M. Mellifera)
4_Carniolan(A. M. Carnica)
5_Caucasian(A. M. Caucasica)
اس میں سے مختلف مقاصد کے لئے الگ الگ مکھی رکھی جاتی ہے، ان کی خصوصیات میں فرق پایا جاتا ہے۔ ان مکھیوں میں سے اچھی خصوصیات رکھنے والی ترقی یافتہ ممالک میں ہائبرڈ کیے گئے ہیں جو اچھی پیداوار دیتی ہیں جن میں سرفہرست امریکن سٹارلائن (Starline) ہے، یہ امریکا میں اٹالین مکھی ہائبرڈ کیا گیا ہے جو امریکا میں نہایت مقبول ہوئی ہے، یہ اچھی پیداوار کے ساتھ موسم کی شدت اور بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت رکھتی ہے۔
ہائبرڈ اقسام:
Starline
All_star
All_American
Cordovan
Buckfast
Kona_Queen
Russian
Midnight
Yog
Africanized_Bee
مندرجہ بالا اقسام میں اطالوی نسل کی مکھی دنیا بھر میں تجارتی بنیادوں پر پالی جاتی ہے جو اچھی پیداوار کے ساتھ بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت رکھتی ہے۔ ہمارے ملک میں اطالوی بریڈ 1978 میں پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل نے آسٹریلیا سے درآمد کیا تھا جو اب تک بڑی کامیابی کے ساتھ پاکستان میں پھل پھول رہی ہے۔ اس نسل کی مکھی پاکستان میں فارمی مکھی، یورپی مکھی اور ولایتی مکھی کے ناموں سے مشہور ہے۔
بعض مگس بان اس کو آسٹریلین بریڈ کہتے ہیں لیکن یہ آسٹریلین بریڈ نہیں ہے بلکہ اطالوی بریڈ (Apis Mellifera Linguistica) ہے جو آسٹریلیا سے درآمد کیا گیا ہے۔ اس کی پیداواری صلاحیت ہمارے ہاں پائی جانے والی مکھیوں سے چار گنا زیادہ ہے۔ شہد کی سالانہ پیداوار بیس سے تیس کلوگرام ہے۔ پہاڑی مکھی کی نسبت صبح کام دیر سے شروع کرتی ہے اور شام کو جلد چھوڑ دیتی ہے۔ شہد کی یہ مکھی بھی دیگر مکھیوں کی طرح بالکل قدرتی شہد بناتی ہے۔
پہلے زمانے میں صرف جنگلی اور گھروں میں پالی گئی مکھیوں سے ہی شہد حاصل کیا جاتا تھا مگر انکی پیداوار بہت کم ہوتی تھی جبکہ اس شہد میں حفظان صحت کے اصولوں کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا تھا جبکہ گھریلو مکھیوں کا شہد انتھائی کم مقدار میں ہوتا تھا جو تجارتی بنیادوں پر آگے نہیں سپلائی کیا جا سکتا تھا۔
تقریباً پچاس ساٹھ سال پہلے یورپ میں جدید مگس بانی کا آغاز ہوا اور جدید مگس بانی کے ذریعے شہد کی پیداوار کیلئے جدید صنعت کی بنیاد رکھ دی گئی۔ پہاڑی ڈھلوانوں کے بجائے مکھیوں کیلے جدید بکس ایجاد ہوئے، ماہرین حیاتیات کے مطابق دنیا میں 20 ہزار مختلف اقسام کے قریب مکھیاں ہیں جبکہ شہد کی مکھیوں کی 44 اقسام ہیں۔
پاکستان میں شہد کی صنعت کو لانے اور کامیاب بنانے کا سہرا افغان مہاجرین کے سر ہے جب یو این ایچ سی آر نے اسٹریلیا سے 1980 میں شہد کی مکھیوں کی یہ موجودہ جدید نسل لا کے افغان مہاجرین میں تقسیم کی اور پاکستان کے آب و ہوا میں یہ نسل افغان مہاجرین کی محنت سے کامیاب ہوئی اگر افغان مہاجرین اس صنعت کو یہاں کامیاب نہ کراتے تو شائد آج ہم اس ملک میں صرف شہد کا نام سنتے۔
آج اگر اس ملک کے اندر اور باہر سے بڑی مقدار میں شہد کی کاروبار کی شکل میں کثیر زرمبادلہ آ رہا ہے تو اس کا تمام کریڈٹ افغان مہاجرین کے محنت کو جاتا ھے۔ رفتہ رفتہ اس پیشے کو یہاں کے مقامی لوگوں نے بھی اختیار کیا موجودہ وقت میں پاکستان میں تقریبا 30ہزار کے قریب شہد کے مکھیوں کے فارمز ہیں جبکہ اس صنعت سے وابستہ افراد کی تعداد تقریباً دس لاکھ ہے اور ان میں سے اکثریت پختونوں کی ہے۔
اگر ہم اس کاروبار کو پختونوں کا کاروبار کہیں تو بے جا نہ ہو گا اس لئے تو ریاستی مشینری اس صنعت کو درپیش چیلنجز اور مشکلات کے حل کی طرف توجہ نہیں دیتی۔ چین، امریکہ، ھنگری، آسٹریلیا اور ترکی میں جدید مگس بانی کے ذریعے شہد بڑی مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔
پاکستان میں اندازتاً 30 ہزار ٹن شہد سالانہ پیدا ہوتا ہے جبکہ طبی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ گھر والی پہاڑی اور بکس والی مکھی کے شہد میں کوئی فرق نہیں ہے، جتنے غذائی حرارے گھروں، پہاڑوں کی مکھیوں کی شہد میں ہوتے ہیں اتنے ہی فارم کی مکھیوں کے شہد میں ہوتے ہیں، ساتھ ہی بکس والی مکھی کے شہد کو صفائی کے لحاظ سے بہترین اور خالص قرار دیا جاتا ہے، فرق مکھیوں کا نہیں پھول اور اس کی خصوصیات کا ہوتا ھے۔
پاکستان کی بہترین آب و ہوا اور مختلف موسموں کی وجہ سے یہاں پر بہترین ذائقے والہ شہد پیدا ہوتا ہے جبکہ دوسرے ممالک کے شہد میں یہ مٹھاس اور ذائقہ نہیں ہوتا، پاکستان میں مئی اور ستمبر کے موسموں میں شہد حاصل کیا جاتا ہے، اس میں، پلوسہ، شوہ، مالٹا، بیکھڑ، الائچی، شفتل، بیکھڑ، سپیرکئی، کریچی، شینشوبئ اور بیر کا شہد قابل ذکر ہے جبکہ سب سے بہترین اور مختلف توانائی کے حراروں کی وجہ سے بیر کے شہد کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔
بیر ،کے شہد میں شوگر کی مقدار انتہائی کم ہوتی ہیں توانائی کے حرارے بڑی مقدار میں اس میں پائے جاتے ہیں، بیر کا شہد دوسرے شہد کی نسبت جمتا بھی نہیں، اگرچہ شہد کا جمنا ایک قدرتی عمل ہوتا ہے اور شہد کے اصلی نقلی ہونے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
ھنی اینڈ بی کیپرز ایسوسی ایشن کے رکن شیخ گل بادشاہ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 25 سے 30 ہزار ٹن شہد کی پیدوار ہے اور 10 لاکھ سے زائد افراد اس پیشے سے وابستہ ہیں جن میں 98 فیصد پشتون اس پیشے سے منسلک ہیں، پاکستان بھر میں شہد کی مکھیوں کے 30 ہزار فارم ہیں جبکہ سالانہ پاکستان میں 40 لاکھ بکسوں میں شہد تیار ہوتا ہے۔
بیر کا شہد 2500 روپےفی کلو کے حساب سے مارکیٹ میں ملتا ہے، پاکستان کے بعد یمن میں بیر کا شہد پیدا ہوتا ہے لیکن بہت کم مقدار میں، عالمی سطح پر شہد کی انٹرنیشنل مارکیٹ میں حکومتی سرپرستی کی وجہ سے یمنی بیر کا شہد 5000 روپے فی کلو تک بکتا ہے جبکہ پاکستان کا شہد اس سے بہتر ہو کے بھی حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے سستا بکتا ھے۔
پشاور میں جی ٹی روڈ پر چمکنی کے قریب شہد کا ایک بہت بڑا سینکڑوں دکانوں پر مشتمل سعودی عرب کے جدہ مارکیٹ کے طرز پر بنایا گیا ایک خوبصورت مارکیٹ ہے جن سے ملک اور بیرون ملک بہت بڑے پیمانی پر شہد کی سپلائی ہوتی ہیں اور بڑے دیدہ زیب طریقے سے وہاں پر شہد کو مختلف ڈبیوں میں پیک کیا جاتا ہیں، اس سے کچھ فاصلے پر ترناب فارم کے قریب بھی ایک بڑی مارکیٹ واقع ھے۔ ہمدرد، ،الاحمد، اور دوسری ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اسی مارکیٹ سے خریداری کرتی ہیں اس صنعت کو کچھ مشکلات بھی درپیش ہیں جنکے حل کیلے اس کاروبار سے وابستہ بزنس کمیونٹی نے اپنا ایک یونین، آل پاکستان بی کیپرز ایکسپورٹرز اینڈ ھنی ٹریڈ ایسوسی ایشن، کے نام سے بنایا ہے جو مختلف متعلقہ فورمز پر اس کاروبار کو درپیش مشکلات کو حل کرنے کیلۓ تگ ودود کرتے ہیں، یونین کے صدر ،سلیم خان، شیر زمان مومند، شیخ گل بادشاہ، اور دوسرے ساتھی اس صنعت کو درپیش مشکلات کو کم کرنے کے لیے ہر وقت مصروف عمل رہتے ہیں ۔ اس صنعت کو درپیش مشکلات میں ایک ملک میں جنگلات کی بیدریغ کٹائی بھی شامل ہیں۔
شہد کی مکھی انسانی فائدے کے لئے مصروف عمل ہوتی ھے مگر انسان اپنے کوتاہیوں سے اس حیوان کے نسل اور خوراک کو ختم کرنے کے درپے ہے۔
حکومت کو چاھئے کہ وہ ایسے درخت لگاے جوماحول کو سرسبز بنانے کیساتھ مکھیوں کے ضروریات کو بھی پورا کرسکتی ہو پہلے سے موجود ان مخصوص درختوں کے کٹائی پر سخت پابندی لگائی جاۓ جن سے شہد حاصل کیا جاتا ہو جبکہ سائنسدانوں کے مطابق مختلف پھل اور اناجوں کے زیادہ پیدوار اور عمل زیرگی کیلے شہد کی مکھیاں انتہائی ضروری ہیں۔
اسی طرح پولیس کی طرف سے فارمز مالکان کو مکھیوں کے نقل و حمل کے دوران تنگ کیا جاتا ہیں ان سے پیسے لئے جاتے ہیں جبکہ کچھ کو مکھیوں کے نقل و حمل کے دوران چیک پوسٹوں پر کئ گھنٹوں تک روکھا رکھا جاتا ھے جس سے کسی غریب پختون کی پورے فارم کے تباہ ہونے خطرہ ہوتا ھے۔
آزاد کشمیر اور ملک کےکچھ دوسرے علاقوں میں شہد کے فارمز کو جانے نہیں دیا جاتا کیونکہ ان علاقوں میں پختونوں کو مشکوک تصور کیا جاتا ھے جو بڑی تشویشناک بات ھے۔
کافی عرصہ سے شہد کا اکثر کاروبار خلیجی ممالک کیساتھ ہوتا تھا مگر کچھ عرصہ سے وہانں پر امن وامان کی مخدوش صورتحال نے اس کاروبار پر بھی برااثر ڈالا ہے لہذا حکومتی طور پر شہد کے برآمدات کیلےنئی منڈیاں تلاش کیجاے جنمیں یورپ اور وسطی ایشیا کی شکل میں ایک بہت بڑی منڈی موجود ہے مگر پاکستان سے یورپ تک پہنچنے میں بہت مشکلات حائل ہیں اگر افغانستان کے راستے یہ سہولت مہیا کیجاے تو ملک کیساتھ اس کاروبار سے وابستہ افراد کو بھلا ہو گا۔
آخری بات یہ کہ قرآن میں اللہ تعالی فرماتا ہیں شہد میں ہم نے شفاء رکھی ہے مصنوعی خوراکوں کے بجاے قدرتی شہد کو اپنی غذا کا حصہ بناے کیونکہ پشاور کے اس انٹرنیشنل ھنی مارکیٹ میں آپکو ہر طرح کا بہترین شہد ملیگا۔شہد کی مکھیوں پر تحقیق کرنے والے نوٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مارٹن بینسیک نے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ اور آواز تبدیل کرنے کو ’غیر معمولی قرار دیا تھا۔