خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

‘جب بات حد سے بڑھ گئی تو میں نے قانونی راستہ احتیار کرلیا’

کائنات علی

‘ گھروالوں نے میری شادی میری مرضی کے بغیر مجھ سے بارہ  سال بڑے آدمی سے کی تھی ۔ میں اس شادی سے خوش نہیں تھی تاہم سسرال والے  مجھ پر مختلف طریقوں سے تشدد کرتے تھے۔ شروع میں مجھے یہ سب کچھ  برداشت کرنا پڑا لیکن جب بات حد سے بڑھ  گئی  تو میں نے قانونی راستہ اختیار کرلیا  اور میں اپنے خاوند سے علیحدہ ہوگئی’

خیبرپختونخوا کے ضلع مردان سے تعلق 45 سالہ ثروت بیگم( فرضی نام)   پچھلے  دو سالوں سے اپنے بھائی کے گھر میں رہتی  ہیں او روہ ان ہزاروں خواتین میں سے ایک ہے  جس کی زندگی  گھریلوں  تشدد کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے بدل گئی ہے۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے چار بچوں کی ماں ثروت بیگم ( جوکہ ایک پرائیوٹ سکول  ٹیچر بھی  ہے) نے بتایا کہ  یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر خواتین  کو  مختلف طریقوں سے گھریلوں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا  ہے  لیکن ڈر اور معاشرے میں بدنامی کی وجہ سے کوئی اس پر کھل کر بات اور  اس سے چٹکھارا پانے کے لئے کوشش نہیں  کرتاجس کی وجہ سے  اس کی روک تھام نہیں ہو پارہی۔

ثروت کے مطابق ” مجھے پتہ تھا کہ خاوند سے طلاق لینے کے بعد  خاندان والے میرا ساتھ نہیں دینگے لیکن میں نے سب کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ قدم اٹھایا  کیونکہ  یہ فیصلہ میں نے خود او رپچوں کی بہتر مستقبل کے لئے  کیا  ہے”ثروت  نے بتایا کہ  علیحدگی کے بعد   کوئی بھی انہیں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتا لیکن  اسے اس بات کا  کوئی پچھتاوا نہیں کیونکہ انہیں اپنی مرضی سے جینے کا حق آئین اور اسلام دونوں نے دیا ہیں۔

‘گھریلوں تشدد  کی بڑی وجہ تعلیم کی کمی ہے’

دوسری جانب پشاور سے تعلق رکھنے والے حقوق نسواں پر کام کرنے والے سماجی ورکر تیمور کمال کا کہنا ہے کہ اس کمیشن کو بنتے ہوئے گیارہ سال ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک یہ اپنے کردار کو صحیح معنوں میں ادا نہیں کر سکا۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ اس کمیشن کو موثر بنانے کے لئے سب سے بنیادی کام اسکے ضلعی دفاتر کو فعال کرنا ہے جو کہ ابھی تک نہ ہو سکا۔

تیمور کمال کا کہنا تھا کہ اس کمیشن کا موثر کردار تب ہی ممکن ہے جب صوبے بھر میں اسکے ضلعی دفاتر قائم ہو جائے کیونکہ پھر لوگ باآسانی اس سہولت سے مستفید ہو سکیں گے اور امید ہے کہ خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے پر تشدد واقعات میں کمی بھی آجائے۔

لیلیٰ شاہ نواز جو کہ پچھلے دس سال سے خیبرپختونخوا میں خواتین کے حقوق کے لئے کام کرتی ہے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے کا کہا کہ خواتین کے خلاف بڑھتی ہوئی گھریلو تشدد کے بہت سے وجوہات ہو سکتی ہیں اور اس میں سب سے بڑی وجہ تعلیم کی کمی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے خواتین مسلسل یہ تشدد برداشت کرتی ہیں اور متعلقہ اداروں کو رپورٹ نہیں کر سکتی۔

دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ چونکہ ہمارے معاشرے پر ہمیشہ سے مرد کی برتری حاصل ہے تو یہی وجہ ہے کہ ڈر کی وجہ سے خواتین تشدد کو رپورٹ کرنے سے کتراتی ہیں لیکن پھر بھی اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں ہمارے خیبرپختونخوا میں خواتین کے خلاف تشدد میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

‘خیبرپختونخوا میں خواتین کے خلاف تشدد میں اضافہ ‘

خیبر پختونخوا میں خواتین کے خلاف تشدد اور خاص طور پر غیرت کے نام پر قتل کے واقعات تواتر سے سامنے آتے رہے ہیں۔ خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے ان پر تشدد واقعات نے اگر ایک طرف صوبائی حکومت کے بنائے گئے خواتین کی تحفظ کے لئے قوانین پر سوالات اٹھا دئیے ہیں تو دوسری طرف صوبائی حکومت کا بنایا گیا "کے پی کمیشن فار سٹیٹس آف ویمین” جس کا بنیادی کام خواتین کے خلاف تشدد کا روک تھام ہے کے کردار پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی تین مئی 2021 کو جاری رپورٹ کے مطابق 2020 میں ملک بھر میں غیرت کے نام پر قتل کے 430 واقعات ہوئے۔ ان واقعات میں قتل ہونے والوں میں 363 خواتین اور 148 مرد شامل ہیں اور یہ واقعات میں سب سے زیادہ خیبرپختونخوا میں واقع ہوئیں ہیں۔

دوسری جانب خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری تنظیم ” عورت فاؤنڈیشن” کی حال ہی میں شائع ہونے والے رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں خواتین کے خلاف تشدد اور خاص طور پر غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

عورت فاؤنڈیشن کے شائع کئے گئے رپورٹ کے مطابق 2009 سے 2020 تک خیبرپختونخوا میں 4504 خواتین  غیرت کے نام پر قتل ہوئی ہیں اور کمیشن کے قیام کے باوجود اس طرح کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے جو کہ بہت تشویشناک بات ہے۔

انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی عالمی تنظیم "ہیومن رائٹس واچ” کے حال ہی میں شائع ہونے والے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سال 2020 میں خواتین کے خلاف پر تشدد واقعات میں دو سو فیصد اضافہ ہوا ہے اور خیبرپختونخوا میں دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ واقعات سامنے آئے ہیں۔

اس طرح سال 2009 میں ایک ایکٹ کے ذریعے بنایا گیا "کے پی کمیشن فار سٹیٹس آف ویمین” جس کو صوبائی حکومت سالانہ 40 ملین روپے گرانٹس دیتی ہیں اپنے کردار کو بخوبی ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ اس کمیشن کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ خواتین کے مسائل پر تحقیق کرے اور صوبائی حکومت کو خواتین کی مسائل کی نوعیت سے آگاہ کرے تاکہ حکومت ان مسائل کو دیکھ کر مناسب قانون سازی کرے اور خواتین کو تحفظ فراہم کرے لیکن حقوق نسواں کے لئے کام کرنے والوں کا خیال ہے کہ یہ کمیشن اس ذمہ داری کو بھی نبھا نہیں سکا اور اب تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔

ٹی این این سے بات چیت کرتے ہوئے کمیشن کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ انکی کوشش ہے کہ صوبے میں اور خاص کر قبائلی اضلاع میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کو عملی طور پر روکے اور لوگوں میں شعور اجاگر کرے تاکہ ان بڑھتے ہوئے واقعات کو روکا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو بھی چاہیے کہ اس طرح کے واقعات کو وقت پر مطلقہ ادارے کو رپورٹ کرے تاکہ بروقت ایکشن لیا جا سکے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button