بلاگزخیبر پختونخوا

بیگم نسیم ولی خان، پختون معاشرے کی ملکہ سیاست

مولانا خانزیب

عورت ہر روپ میں مقدس ہوتی ہے لیکن اگر کوئی عورت ایک ایسے معاشرے میں ہو جہاں پر انتہائی مشکلات ہوں، مردوں کی برتری ہو، عورت کا گھر سے نکلنا مشکل ہو وہاں اس کا کسی قسم کا کوئی کردار ادا کرنا اور پھر سیاسی حیثیت میں اپنے آپ کو منوانا، اس طرح کی مثالیں بہت کم نظر آتی ہیں مگر ان حالات میں بیگم نسیم ولی خان تاریخ میں ہمیشہ امر رہیں گی کہ کس طرح انہوں نے ایک طرف اپنے آپ کو پختون کلچر کی روایات کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑا تھا، ایک تعلیم یافتہ، خوش گفتار، بااخلاق اور سلیقہ مند خاتون تھیں تو دوسری طرف ان کا پختونخوا کے سیاسی افق پر سیاسی روپ میں جان دار کردار تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

پختون سوسائٹی میں ہمیں ایسی عورتوں کا تذکرہ بہ نسبت مردوں کے بہت کم ملتا ہے جو سیاسی روپ میں جلوہ افروز ہوئی ہوں، بیگم نسیم ولی خان کا سیاسی قد کاٹھ اور قومی سیاست میں متحرک کردار اس بات کا ثبوت ہے کہ پختون سوسائٹی میں اگر کوئی عورت آج بھی تعلیم حاصل کرے اور اس کو اپنی استعداد و صلاحیت کے مطابق مواقع ملیں تو پختون عورت ذہانت اور کردار میں دنیا کے کسی بھی معاشرے کی عورتوں سے کم نہیں ہوتی۔

انہی عورتوں میں ایک تاریخ میں ہمیں سکندر یونانی کیخلاف ‘بازیرہ’ تالاش کے مقام پر اساکینوں کے لشکر کی سربراہی کرنے والی ملکہ ‘روشانہ’ کا ذکر ملتا ہے کہ کس طرح اس نے اسکندر کے لشکر کو تتربتر کیا تھا۔ مغلیہ سلطنت کے خلاف لڑنے والی بایزید انصاری کی بہو ‘بی بی الائی’ کا ذکر ملتا ہے کہ کس طرح اس نے اس وقت کے مشکل حالات میں پختونوں کے قومی لشکر کی میدان جنگ میں قیادت کی تھی جو اپنے حسن کے ساتھ ساتھ بہادری میں بھی اپنی مثال آپ تھی۔ اسی طرح جلال الدین اکبر کے دور میں پختون قبیلہ دلہ زاک کی ایک اور بہادر عورت ‘بی بی شابوڑے’ کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے کہ وہ تن تنہا کتنی بہادری سے مغلوں کیخلاف لڑی تھی۔

 

ہم اگر پاکستان بننے کے بعد آج تک پختون معاشرے میں کسی عورت کا انتہائی جاندار سیاسی کردار دیکھتے ہیں تو اس میں ہمیں صرف ایک ہی عورت نظر آتی ہے جس کا نام نسیم ولی خان ہے۔

بیگم نسیم ولی خان 1936 کو مردان میں امیر محمد خان ہوتی کے گھر پیدا ہوئی تھیں جبکہ وہ اے این پی کے موجودہ سینئر نائب صدر حیدر ہوتی پھوپھی تھیں۔ 1949 میں جب ولی خان جیل میں تھے تو دوران حراست ان کی پہلی بیوی تاجو بی بی دو بیٹوں کی پیدائش کے وقت فوت ہوئی، ایک بیٹا بھی ان کے ساتھ چل بسا جبکہ زندہ رہنے والا بچہ اسفندیار ولی خان تھا۔

1954 میں جیل سے رہائی کے بعد بیگم نسیم کی شادی ولی خان سے ہوئی، نسیم ولی خان کا گھرانہ ایک سیاسی گھرانہ تھا جبکہ شادی کے بعد وہ باچا خان کی بہو بنی، ولی خان اس وقت پاکستان کے سیاسی افق کے صف اول کے لیڈروں میں تھے۔

ولی خان اپنی کتاب ‘باچا خان او خدائی خدمتگاری’ میں لکھتے ہیں کہ 1975 میں حیات شیرپاؤ کے قتل کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں مجھ سمیت ‘نیپ’ کے صف اول کی قیادت کو گرفتار کیا گیا، جیل سے باہر رہنے والے لوگوں پر بھٹو کی طرف سے بے پناہ مظالم ڈھائے گئے، ہماری پارٹی نیشنل عوامی پارٹی پر دوسری دفعہ پابندی لگائی گئی، میں سکھر کی جیل میں تھا، نسیم ولی خان کبھی کبھی ملاقات کیلئے آتی تھیں، ایک دفعہ جب وہ ملاقات کیلئے آئیں تو انہوں نے باہر حکومت کے مظالم سے آگاہ کیا، جیل میں ملاقات کے وقت پشاور کے سی آئی ڈی کا ایک افسر بھی ہماری مخبری کیلئے ہوتا تھا۔ وہ ہم پر زور ڈالتا تھا کہ ہم آپس میں بات چیت اردو میں کریں مگر میں نے انکار کر دیا کہ ہم اپنی زبان پشتو ہی میں بات چیت کریں گے، اگر آپ مناسب نہیں سمجھتے تو ملاقات پر پابندی لگا دیں۔

نسیم ولی خان نے ایک دن مجھ سے کہا کہ ساتھیوں کو منظم رکھنے اور حکومت کے مظالم کیخلاف کھڑے ہونے کیلئے ہمیں ایک پارٹی بنانا ہو گی، میں نے ان  کو مشورہ دیا کہ آپ باہر کے حالات کو بہتر سمجھتی ہیں، جیسے مناسب سمجھیں وہ کریں۔ کچھ دن بعد پتہ چلا کہ بیگم نسیم ولی، غلام احمد بلور اور امیر زادہ خان نے ان تمام ساتھیوں سے مشاورت کی ہے جو جیل سے باہر تھے اور انھوں نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) کے نام سے نئی پارٹی بنائی ہے, بلوچ رہنما سردار شیر باز خان مزاری کو صدر اور نسیم ولی خان کو نائب صدر چن لیا گیا ہے۔

اس نئی پارٹی کے زیرِ سایہ نسیم ولی خان نے بھٹو حکومت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، 1977 میں پشاور اور مردان کے قومی اسمبلی حلقوں پر (این اے 4 اور این اے 8) انتخاب لڑا اور بیک وقت دونوں حلقوں سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں مگر بھٹو کے خلاف تحریک کی وجہ سے رکنیت کا حلف اٹھا نہ سکیں۔

کچھ عرصہ بعد جب ضیاء الحق اقتدار میں آئے تو ولی خان اور دیگر ساتھی رہا ہو گئے، نسیم ولی خان قومی سیاست میں پھر بھی متحرک رہیں۔ جب 1986 میں عوامی نیشنل پارٹی قائم ہوئی تو ولی خان پارٹی کے پہلے صدر اور سوات کے افضل خان لالا پہلے صوبائی صدر منتخب ہوئے۔

ضیاء الحق کی موت کے بعد جب تمام سیاسی پارٹیاں منظم ہوئیں تو اے این پی نے بھی اپنے تنظیمی سٹرکچر کو انتہائی فعال کیا جس میں بیگم نسیم ولی خان کا کردار بہت زیادہ تھا۔ 1988 میں وہ چارسدہ سے صوبائی اسمبلی کی رکن بھی منتخب ہوئیں، بعد میں 1990 ء 1993ء اور 1997 ء کو بھی وہ مسلسل صوبائی اسمبلی کی ممبر منتخب ہوتی رہیں جبکہ 1990 اور 1997 کے دوران وہ قائد حزب اختلاف بھی رہیں۔

صوبائی اسمبلی کے فلور پر پختونوں کے مسائل اور قومی حقوق کیلئے بے مثال کردار ادا کیا جبکہ 1998 کو بیگم نسیم ولی خان نے سابقہ فاٹا کے حوالے سے ایک تاریخی قرارداد پیش کی کہ فاٹا کو اگر ترقی دینی ہے تو اس کو صوبے کا حصہ بنایا جائے۔ وہ وقتاً فوقتاً پشاور میں تمام قبائلی ایجنسیوں کے جرگے بھی منعقد کرتی تھیں، اس وقت قبائلی علاقوں کے کچھ ملکان نے پولیٹیکل انتظامیہ کے اشاروں پر بیگم نسیم ولی خان کے خلاف پریس کانفرنسز کی تھیں کہ وہ ہمارے علاقے میں مداخلت نہ کریں مگر تاریخ نے اس دوراندیش پختون سیاست دان عورت کی سیاسی بصیرت و فراست پر بیس سال بعد مہر تصدیق ثبت کی۔ اگر اس وقت اے این پی کی اس قرارداد کو حکومت سنجیدہ لیتی تو شائد آج بربادیوں کی یہ داستانیں ہمارے سامنے نہ ہوتیں۔

بیگم نسیم ولی خان دو بار 1994 ء اور 1998 ء کو اے این پی کی صوبائی بھی صدر رہیں۔ اے این پی میں صوبہ پختونخوا کی صدارت انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، بیگم نسیم ولی خان نے پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کیلئے دن رات کام کرتے ہوئے اپنے منصب کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا تھا۔

میرے خیال میں بیگم نسیم ولی خان میں کچھ خوبیاں ایسی تھیں جن کی بدولت وہ بہت مرد سیاستدانوں سے بھی ممتاز ہوتی ہیں۔ انتہائی دلیر خاتون تھیں، ملکی سیاست کے ساتھ ساتھ پختونوں کی قومی سیاست پر انتہائی عبور حاصل تھا، انتہائی ذہین عورت تھیں، جب بھی ہم نے ان کو دیکھا سنا وہ ہر ضلع کے پارٹی ذمہ دار تنظیمی عہدیداروں کو بنفس نفیس نام سے پہچانتی تھیں اور نام سے پکارتی تھیں۔

پختون معاشرے میں کسی عورت کا چار بار صوبائی اسمبلی کے فلور تک براہ راست ووٹ کے ذریعے پہنچنا شاید نسیم ولی خان کا ایک ایسا امتیاز ہے کہ پختون عورت تو کیا دوسری اقوام کی عورتوں میں بھی اس طرح کی مثال شاید ہی ملے۔ آج فوت ہو گئیں، خدا ان کے درجات بلند فرمائے۔

بیگم نسیم ولی خان نے 2014 میں عوامی نیشنل پارٹی (ولی) کے نام سے اپنی سیاسی جماعت کا آغاز کیا۔ وہ اپنی پارٹی بنانے والی چارسدہ کی پہلی پختون ہیں مگر بعد میں گلے شکوے دور ہوئے اور واپس اے این پی میں آ گئیں۔ وہ ہمیشہ سے پختون سوسائٹی میں خواتین کی سیاسی کردار کی مضبوط حامی رہی ہیں اور وہ خود اس حوالے سے ایک ماڈل رہیں گی۔ انکا ایک بیٹا سنگین ولی خان تھا، 2008 میں فوت ہوا جبکہ ایک بیٹی ڈاکٹر گلالئ ابھی حیات ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button