سیاحوں کو اجازت نہیں، کیلاشی تہواروں کے رنگ پھیکے پڑ گئے
گل حماد فاروقی
کیلاش قبیلے کے لوگ اپنی محصوص ثقافت، رسم و رواج، دستور اور رنگا رنگ تہواروں اور تقریبات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ کیلاشی لوگ سال میں دو چھوٹے اور دو بڑے تہوار مناتے ہیں۔ بریر وادی میں ہر سال اکتوبر کے آحری ہفتے میں پھولوں کا تہوار بھی منایا جاتا ہے جو سب سے علیحدہ ہوتا ہے جس میں ان لڑکیوں کے سروں پر پھولوں سے بنی ہوئی ٹوپی رکھی جاتی ہے جن کی عمر دس سال سے زیادہ ہو جائے۔
اس کے علاوہ کیلاشی لوگ اپنی میت پر نوحہ، سوگ یا غم نہیں کرتے بلکہ وہ ان میتوں کا بھی تین دن تک جشن مناتے ہیں۔ اگر علاقے کا مشہور و معروف مرد مر جاتا ہے تو اس کی موت پر سو سے زیادہ بکریاں بھی ذبح کی جاتی ہیں اور یہ بکریاں مسلمان ہی ذبح کرتے ہیں تاکہ کیلاشیوں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی ان کا گوشت کھا سکیں۔ اس کے علاوہ میت پر تین دن تک کھانا دیا جاتا ہے جس میں دیسی گھی، پنیر اور دیسی قسم کے کھانے شامل ہوتے ہیں۔ خواتین رقص کرتی ہیں، گیت گاتی ہیں، جبکہ مرد حضرات ڈھولک بجاتے ہیں وہ بھی محصوص انداز میں ہاتھوں میں لاٹھیاں پکڑ کر رقص کرتے ہیں سیٹیاں بجاتے ہیں جبکہ میت کے قریبی رشتہ دار (بیوی، بیٹی، بہن) ان کے سرہانے بیٹھ کر روتی بھی ہیں۔
میت کی ٹوپی میں دس روپے سے لے کر ایک ہزار روپے تک کے نوٹ سجائے جاتے ہیں اور اس کے سرہانے خشک اور تازہ پھلوں کے ساتھ ساتھ سگریٹ اور نسوار کو بھی رکھا جاتا ہے جبکہ آنے والے مہمانوں میں بھی سگریٹ اور نسوار تقسیم کر کے ان کی ضیافت کی جاتی ہے۔
کیلاشی لوگ کافی مہمان نواز ہیں، خواتین پورے سال گھروں میں بیٹھ کر ہاتھوں سے رنگین پٹی بناتی ہیں جسے اپنے زبان میں شمانی کہتے ہیں اور آنے والے مہمانوں کے گلے میں اسے ڈال کر تحفے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو کہ ان کے مطابق یہ مہمان کی بہت بڑی عزت افزائی ہوتی ہے۔
تاہم بعض خواتین گھروں میں بیٹھ کر سلائی، کڑھائی اور دستکاری کی محتلف چیزیں بناتی ہیں جن کو وہ ان تہواروں کے موقع پر دکانوں میں بیچتے ہیں۔ اس کے علاوہ کیلاش وادی میں پچاس کے لگ بھگ ہوٹل ہیں جو برف باری اور سخت سردی کی وجہ سے سال میں چھ ماہ تک بند رہتے ہیں مگر ان کی نظر بھی ان تہواروں پر ہوتی ہے اور اس کا انتظار کرتے ہوئے وہ پورے سال کا خسارہ پورا کرتے ہیں۔
کرونا ٓوباء کی وجہ سے پچھلے سال بھی چیلم جوش کے موقع پر سیاحوں کی آمد پر پابندی تھی امسال بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے کسی سیاح کو وادی میں جانے نہیں دیا گیا۔ بعض لوگوں نے پچھلے سال شکایت کی تھی کہ انتظامیہ کے افسران خود جا کر اس تہوار سے لطف اندوز ہوتے رہے مگر سیاحوں کو نہیں چھوڑا گیا۔
اشفاق احمد ایک کوالیفائیڈ ٹور گائیڈ ہیں، وہ پورا سال اس سیزن کا انتظار کرتے ہیں کہ ان تہواروں میں غیرملکی سیاح یہاں آتے ہیں اور ان کو وادی میں گھما پھرا کر گھر کا خرچہ نکالتے ہیں مگر پچھلے سال کی طرح اس سال بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے وادی کیلاش میں کسی سیاح کو نہیں آنے دیا گیا۔
مجاہد علی کا تعلق وادی بمبوریت کیلاش سے ہے وہ خود تو لاہور میں موٹر بارگین کا کاروبار کرتا ہے مگر اس کی پوری فیملی یہاں آباد ہے، اس کا بھی یہی کہنا تھا کہ ہمارے لوگوں کی معیشت کا دارومدار سیاحت پر ہے اور جب سیاح نہیں آئیں گے تو ہم کیا کھائیں گے۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومتی اداروں کو چاہئے کہ اس کیلئے کوئی لائحہ عمل بنائے کہ ہماری معیشت بھی برباد نہ ہو اور کرونا کی بیماری کی بھی روک تھام ہو سکے، سیاح اس وادی میں آئے گا وہ SOP کا حیال رکھے گا، ماسک پہنے گا، دستانے اور کسی سے ہاتھ نہیں ملائے گا اور فاصلہ رکھے گا تو کوئی مسئلہ نہیں ہو سکتا۔
شاہی گل کیلاش نے اپنے گھر کے ایک کمرے میں زنانہ دستکاری مرکز کھولا ہوا ہے وہ خود بھی اور اس کی بیٹیاں بھی اس دستکاری سنٹر میں محتلف چیزیں بناتی ہیں اور ان فن پاروں کو چیلم جوش یا چھتر مس کے تہواروں میں بیچتی ہیں مگر پچھلے سال بھی ان کے دستکاری مرکز میں بنائی گئی چیزیں سب کی سب پڑی رہ گئیں اور امسال ایک بار پھر شاہی گل حسارے کا شکار ہوئی۔
دایمی بیگم کیلاشی، جن کی عمر 75 سال ہے اور پچھلے کئی دہائیوں سے وہ دکانداری کرتی ہیں، کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے دکانیں بند ہوئیں اور جوشی تہوار میں بھی کوئی سیاح نہیں آیا، ”میری دکان میں اس گاؤں کی تیس سے چالیس خواتین گھروں میں ہاتھوں سے دستکاری کی چیزں بنا کر لاتی ہیں جو میں بیچتی ہوں اور مجھے اس پر بہت معمولی سا کمیشن ملتا ہے مگر کرونا نے ہمیں برباد کر کے رکھ دیا نہ کوئی سیاح آیا اور نہ میری دکان میں رکھی ہوئی چیزیں بکیں جس کی وجہ سے نہ صرف میں اور میرے گھر والے متاثر ہوئے بلکہ اس گاؤں میں چالیس گھرانے اور بھی مالی مشکلات کے شکار ہوئے۔”
محمد رفیع سابق ناظم یونین کونسل بمبوریت سے جب بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ تہواریں نہ صرف لوگوں کی Entertainment کا ذریعہ ہیں جہاں کثیر تعداد میں دنیا بھر سے سیاح آ کر اس رنگا رنگ تقریب سے محظوظ ہوتے ہیں بلکہ ہماری معیشت کا بھی بہت اس پر بہت بڑا انحصار ہے کیونکہ جب اس وادی میں ملکی اور غیرملکی سیاح آتے ہیں تو وہ ہمارے ہوٹلوں میں رہتے ہیں، ہماری دکانوں سے چیزیں خریدتے ہیں اور وادی کے ٹور گائیڈ کو بھی ان سے بہت زیادہ مالی فائدہ پہنچتا ہے مگر پچھلے دو سالوں سے ہم نہایت مالی مشکلات کا شکار ہیں۔
اس سلسلے میں جب اسسٹنٹ کمشنر ثقلین سلیم سے بات ہوئی تو ان کا کہناتھا کہ حکومتی ہدایات کے مطابق سولہ مئی تک کسی بھی غیرملکی سیاح کو اپنے ہوٹل سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔
ایک ہوٹل منیجر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ چترال بازار میں ایران سے آئے ہوئے ایک سیاح کے ساتھ انتظامیہ کے اہلکاروں نے کافی سختی کی۔
کیلاش قبیلے کے اس تہوار کی کوریج کیلئے میڈیا کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی، اس سلسلے میں اقلیتی امور پر وزیر اعلی خیبر پحتون خواہ کے مشیر وزیر زادہ کیلاش سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی معذرت کر لی کہ حکومت نے میڈیا پر بھی پابندی لگائی ہے اور یہی وجہ ہے کہ امسال ایک بار پھر کیلاش قبیلے کے تہوار کی کسی میڈیا میں کوریج نہیں ہو گی۔
کیلاش قبیلے کے لوگوں کا کہنا تھا کہ حکومت کا فیصلہ سر آنکھوں پر مگر ہماری غریبی کا بھی حیال رکھنا چاہئے، انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ لاک ڈاؤن کی مد میں جو امدادی رقم باہر سے آتی ہے اس میں ہمارا حصہ بھی ہونا چاہئے تاکہ ہمارے بچے بھی بھوک سے نڈھال نہ ہوں۔