خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

‘خود تو ریگولر تعلیم جاری نہ رکھ سکی لیکن اب اپنے بہن بھائیوں کو پڑھا رہی ہوں’

 

حناء گل، رانی عندلیب

مردان پوہان کالونی سے تعلق رکھنے والی خاتون آمنہ کہتی ہے کہ انہوں نے مردان ووکیشنل سنٹر سے فیشن ڈیزائننگ میں ڈپلومہ کیا ہے جس پہ وہ اب بہت خوش ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘مجھے بچپن سے سلائی کڑھائی پسند تھی اسی وجہ سے میں نے ووکیشنل سنٹر میں داخلہ لیا جس سے اب میں اچھی خاصی کمائی بھی کرتی ہوں اور اپنے گھر کا خرچہ بھی خود چلاتی ہوں بچوں کی فیسیں ادا کرتی ہوں اور باقی ضروریات بھی پوری کرتی ہوں’

آمنہ کہتی ہے کہ مردان میں جتنے بھی ووکیشنل سنٹرز ہے بہت دور ہیں اور اس کی تعداد بھی بہت کم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مردان میں ووکیشنل سنٹرز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے کیونکہ اس وجہ سے انکو بھی بہت مشکلات پیش آئے تھے کیونکہ خواتین چاہتی ہیں کہ کوئی ہنر سیکھ لے لیکن سنٹرز کافی دور ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ میں وہ نہیں جاسکتی۔

 

آمنہ کی طرح پشاور کی بسمینہ بھی سلائی کرتی ہیں اور اپنے خاندان والوں کو سپورٹ کررہی ہیں۔ پشاور کے علاقے رامداس سے تعلق رکھنے والی بسمینہ کا کہنا ہے کہ بالا ماڑی کے گورنمنٹ سکول سے میٹرک کے بعد ان کے گھر کے حالات ایسے نہیں تھے کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکے اور نہ گھر کے اخراجات اور حالات یہ اجازت  دے رہے تھے کہ وہ آگے پڑھے اس لیے بسمینہ نے اپنی تعلیم کو پرائیویٹ جاری رکھنے کا ارادہ کرلیا.

انہوں نے کہا کہ والد کی آمدنی اتنی نہیں تھی کہ کالج میں ایڈمیشن کر لیتی اس لیے پرائیویٹ ایڈمشن کے ساتھ کوہاٹ روڈ والے سلائی کڑھائی کے سنٹر میں داخلہ لیا اور جیسے ہی سلائی سیکھ لی تو گھر پر سلائی کرنے لگی۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ ہنر سیکھنا لڑکیوں کے لیے بہت ہی اچھی بات ہے کیونکہ اس سے انسان پیسے کما سکتا ہے۔

اس نے جب سلائی سیکھ لی تو گھر والوں کے لیے کپڑے سینا شروع کیے. پھر آس پڑوس میں بھی سب کو خبر ہو گئی کہ بسمینہ کپڑے سیتی ہے تو اس طرح آس پڑوس والوں کے لیے کپڑے سینا شروع کیے، رفتہ رفتہ سب کو پتہ چلنا شروع ہوا اور اب دور دور سے بھی لوگ آ کر بسمینہ سے کپڑے سلواتے ہیں۔

بسمینہ نے بتایا کہ ہر مہینے بیس سے پچیس ہزار روپے وہ گھر پر بیٹھے کما لیتی ہے۔ بسمینہ کے مطابق وہ خود تو ریگولر تعلیم حاصل نہ کر سکی لیکن اب اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو پڑھا رہی ہے اور انکو اچھے سکولوں میں داخل کیا ہے.بسمینہ کہتی ہے کہ وہ گھر کے کاموں میں بھی اور گھر کے اخراجات میں بھی والدین کا ہاتھ بٹھاتی ہے۔ ‘ اگر لڑکیاں تعلیم حاصل نہ بھی کر لے یا لڑکیوں کی تعلیم بیچ میں رہ جائے پھر ہنر بہت اچھی چیز ہے ہر لڑکی کو چاہیئے کہ وہ کوئی نہ کوئی ہنر سیکھ لے کیونکہ وہ خود کے لیے کچھ نہ کچھ کر سکے گی اور آگے بھی زندگی میں اپنے لیے بہت کچھ کر سکے گی’ بسمینہ نے کہا۔

بسمینہ کا کہنا ہے کہ زندگی میں اچھا برا وقت آتا ہے جس میں اپنے بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں تو اگر انسان کے پاس ہنر ہوگا تو وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی بجائے خود محنت کرسکے گا اور اپنا پیٹ پال سکے گا۔

 

دوسری جانب ضلع مردان کے محکمہ سوشل ویلفئرکے آفیسر عبدالرشید خان کا کہنا ہے کہ مردان میں ووکیشنل سنٹرز کی کُل تعداد 23 ہیں جس میں دو سنٹرز بیوٹیشن کے ہیں عبدالرشید خان کا کہنا ہے کہ ان سنٹرز میں صرف خواتین کو داخلے دیے جاتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہیں کہ خواتین کو ہر قسم کی سہولت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع مردان کی کُل آبادی 22 لاکھ ہیں جس کیلئے ان ووکیشنل سنٹرز کی تعداد بہت کم ہے حکومت کو چاہئے کہ مزید ووکیشنل سنٹرز کھول دئیے جائے تاکہ جن علاقوں کی خواتین کی رسائی مردان شہر تک نہیں ہوتی ان کیلئے آسانی ہو۔

لیبر کالونی میں خواتین ووکیشنل انسٹیٹیوٹ کی پرنسپل نسرین کوثر کہتی ہیں کہ انہوں نے 52 خواتین کو داخلہ دیا ہے نسرین کوثر کہتی ہے کہ انہوں نے سلائی کڑھائی، ڈیزائننگ اور جیولری بنانے کا کام بھی سکھاتی ہیں اور اس کے ڈپلومہ علاوہ کورس بھی دیتے ہیں جس میں ان سے بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے زیر تحت  امتحان بھی لئے جاتے ہے نسرین کوثر کا کہنا ہے کہ یہاں سے جتنے بھی ڈپلومہ ہولڈر گئے ہیں ان میں سے اکثریت نوکری کرتی ہیں زیادہ تر خواتین نے بیوٹیشن سنٹرز کھلے ہیں جن سے اس کی اچھی خاصی کمائی ہوتی ہیں پرنسپل ووکیشنل سنٹر نسرین کوثر نے کہا ہے کہ خواتین کو چاہیئے کہ گھر بیٹھنے کی بجائے کوئی ہنر سیکھ لے اور اپنی زندگی کے سفر کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button