گجرے بیچنے والی خدیجہ معلمہ بننا چاہتی ہے
نسرین
”جب کوئی کہتا ہے کہ ادھر آؤ پیسے دیتا ہوں تو میں نہیں جاتی، امی کہتی ہیں بازار میں کسی کو جواب نا دو، اگر کوئی کہتا ہے کہ یہاں پھول نا بیچو تو میں وہاں سے چلی جاتی ہوں، کسی کو جواب نہیں دیتی، گیارہ بہن بھائی ہیں والد کی وفات کے بعد باقاعدہ مزدوری شروع کر دی ہے۔ روزانہ آدھہ گھنٹہ پیدل چل کر آتی ہوں اور رات تک دس پھولوں کے گجرے بیچ کر پیدل واپس جاتی ہوں، اس میں سے کچھ پیسے جمع کر کے عید کے لیے کپڑے بناؤں گی۔”
یہ کہنا تھا اپنے سر اور بالوں کو مکمل طور پر ڈھانپے ہوئے اور اپنی کلائیوں کو اپنی پھٹی پرانی سفید چادر سے لپیٹے ہوئے گیارہ سالہ خوبصورت معصوم لیکن بہادر خدیجہ کا جو پشاور صدر میں گلاب کے پھولوں کے گجرے 50۔50 روپے میں بیچ کر اپنے گھر کا چولہا جلانے میں ماں کی مدد کرتی ہے۔ خدیجہ بڑی ھو کر دینی عالمہ بننا چاہتی ہے، اس لیے وہ مدرسے میں شوق سے پڑھتی ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے خدیجہ نے بتایا کہ میں زیادہ تر خواتین گاہکوں کی طرف جاتی ہوں، سارے لوگ ایک جیسے نہیں ہیں لوگ میری حفاظت بھی کر رہے ہوتے ہیں جو مجھے کافی عرصے سے جانتے ہیں کہ میں یہاں صدر میں پھول بیچتی ہوں وہ خود ہی میرا خیال رکھنا شروع کر دیتے ہیں، کوئی تھوڑی دیر میرے پاس کھڑا ہو اور باتیں کرے تو وہ آ کر اس سے پوچھنے لگ جاتے ہیں کہ کیا بات ہے؟
دوسروں کی کلائیوں کو صرف 50 روپے کے عوض پھولوں سے سجانے اور مہکانے والی بہادر پری خدیجہ کہتی ہے کہ میں لوہے کی باریک تاروں میں پھول پرو کر گجرے نہیں بنا سکتی، تاریں میرے ہاتھوں کو زخمی کر دیتی ہیں لیکن میری بھابی 5 گھنٹے لگا کر گلاب کے پھول لوہے کی باریک تاروں میں پرو کر روزانہ 30 سے 40 گجرے بناتی ہیں جو میرا بھائی اور میں صدر بازار میں گھومتے پھرتے بیچتے ہیں، جو گجرے بچ جاتے ہیں وہ ضائع ہو جاتے ہیں اور ہمیں نقصان ہوتا ہے کیونکہ ان کو سٹاک نہیں کیا جا سکتا، یہ تو روزانہ تازہ کھلتے اور روزانہ مرجھا جاتے ہیں۔
خدیجہ کا کہنا تھا کہ میں والد صاحب کی زندگی میں کام نہیں کرتی تھی لیکن اس بڑی عید پر ان کی وفات کو اور مجھے پھول بیچتے تین سال ہو جائیں گے، ”میری امی بوڑھی ہو گئی ہیں ان سے زیادہ کام نہیں ہوتا ان کے پاس تو پیسے نہیں ہیں کہ وہ میرے لیے عید کے کپڑے بنا سکیں، میں جو مزدوری کرتی ہوں اس سے کچھ پیسے روزانہ امی مجھے دے دیتی ہیں اور میں وہ جمع کرتی ہوں اور اپنی ضرورت کی چیزیں لے لیتی ہوں، ابھی عید کے کپڑے بناؤں گی۔”
اپنے نازک اور چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں پھولوں کے گجروں سے لدا لکڑی کا باریک ڈنڈا اٹھائے بظاہر کمزور نظر آنے والی اور حقیقی معنوں میں انتہائی بہادر خدیجہ کے چہرے پر پھول بیچتے ہوئے بھی سکون اور اطمینان اور ایک طرح کا اعتماد تھا۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں خدیجہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے محنت مزدوری کر کے اپنے گھر والوں کی مالی امداد کر رہی ہے، ”ہم چھ بھائی اور پانچ بہنیں ہیں ان میں سے کچھ کی شادیاں ہو چکی ہیں تاہم مجھے سبق کی استاد یعنی دینی عالمہ بننے کا شوق ہے اور میری امی بھی مجھے کہتی ہیں کہ جلدی جلدی سبق ختم کرو اور پھر بڑا سبق لو اور آگے بڑھو تاکہ تم عالمہ بن سکو۔”
گجرے بیچنے کے طریقے کے حوالے سے اس نے بتایا کہ بازار میں جہاں خواتین نظر آتی ہیں میں ان کے پاس جا کر کھڑی ھو جاتی ہوں، وہ خود ہی مجھ سے گجرے کی قیمت پوچھتی ہیں اور 50 روپے کا ایک گجرہ خرید لیتی ہیں۔ خواتین کے ہاتھوں کو گلاب کے پھولوں سے معطر کرنے والی خدیجہ نہیں جانتی کہ ایک گجرے کے بک جانے پر اسے کتنا منافع ہوا، اس کی لاگت کیا تھی، محنت کی کیا قیمت لگی اور کتنا منافع ملا؟ خدیجہ کی عمر میں ابھی اتنی پختگی نہیں آئی کہ وہ حساب کتاب رکھ سکے وہ تو صرف یہ جانتی ھے کہ اسے روزانہ 10 گجرے پیچنے ہیں جو وہ گھر سے لائی ھے اور فی گجرا 50 کے حساب سے 500 روپے لے کر گھر جانا ھے۔
نجانے وہ وقت کب آئے گا جب ھم اپنی بچیوں کو دو وقت کی روٹی اور تن ڈھانپنے کو لباس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے درندوں سے بھری اس دنیا میں مزدوری کے لیے بھیجنے کی بجائے سکول بھیجیں گے جہاں سے وہ تعلیم یافتہ، مضبوط اور مستحکم لڑکی اور انسان بن سکے گی نا کہ انسانوں کے اس جنگل میں بھیجیں کہ جہاں ہوس کے پجاریوں اور درندوں سے بدتر انسانوں کے کئی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جنہیں پڑھ یا سن کر سے انسانیت بھی شرما جاتی ہے۔
ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ ھماری یہ ننھی لیکن بہادر پریاں اللہ تعالیٰ کے حفظ و اماں میں رہیں اور حکمرانو ں سے گزارش کر سکتے ہیں کہ خدارا ایسا نظام لائیں کہ ھماری قوم کے بچے اور بچیاں بازاروں میں رل رل کر اشیاء بیچنے سے بچ جائیں کیونکہ یہ بچے کسی برینڈ کے کپڑوں یا فائیو سٹار ھوٹلز، یا پھر پیزے شوارمے برگرز کھانے کے لیے مزدوری کرنے نہیں نکلتے بلکہ انہیں بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی خطروں کی بھیڑ میں مزدوری کرنے پر مجبور کرتی ہے۔