جمرود بچے کی موت کا ذمہ دار کون؟ ملزمان یا ڈاکٹرز
ضلع خيبرسے بلوچستان عوام پارٹی کے ممبر صوبائی اسمبلی بلاول آفریدی نے اپنے خلاف حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے جاری کردہ بيان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہسپتال انتظامیہ نے اُن پر ہسپتال میں توڑ پھوڑ کے بے بنیاد الزامات لگائے ہیں حالانکہ وہ اس وقت بھی سے صوبے سے باہر ہے۔
گزشتہ روز ہسپتال کے ڈاکٹروں نے الزام لگایا تھا کہ ہسپتال میں جمرود سے تعلق رکھنے والے فوت شُدہ بچے کے ورثا نے احتجاج شروع کیا جس میں ایم پی اے بلاول آفریدی بھی موجود تھے، احتجاج کے دوران انہوں نے ڈاکٹروں کو گالیاں دی، ہسپتال میں توڑ پھو کی اور ہاتھاپائی میں گولی چلنے سے ایک شخص زخمی ہوا لیکن اب تک ملنے والی معلومات کے مطابق ایک شخص کی زخمی ہونے کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
احتجاج کرنے والے ڈاکٹرز نے مطالبہ کیا ہے کہ مذکورہ ایم پی اے کے خلاف اپیڈیمک کنٹرول اینڈ ایمرجسنی ریلیف ایکٹ 2020 اور کار سرکار میں مداخلت کے دفعات کے تحت کاروائی کی جائے۔
ردعمل میں رُکن صوبائی اسمبلی بلاول آفریدی نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہسپتال ترجمان کی طرف سے غلط بیان جاری کیا گیا ہے اور خبر سے ان کی استحقاق مجروح ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت صوبے سے باہر ہے اور توڑ پھوڑ سے اُن کا کوئی تعلق نہیں، انکے مطابق عوامی نمائندے کی حیثیت سے وہ عوام کی ہر قسم دُکھ درد میں برابر کے شریک ہونگے۔
یاد رہے کہ جمعہ کو جمرود میں دو فریقین کے درمیان فائرنگ میں ایک راہگیر بچہ شدید زخمی ہوا تھا، بچے کو علاج کیلئےحیات میڈیکل کمپلیکس لایا گیا جہاں پر جانبر نہ ہو سکا۔
ورثا نے بچے کی موت کی وجہ ڈاکٹروں کی غفلت اور عدم موجودگی قرار دے کر ہسپتال میں احتجاج شروع کیا۔ جمرود سے ٹی این این کے نمائندے محمد زاہد کے مطابق احتجاج میں ایم پی اے بلاول آفریدی کے چچا زاد بھائی اور ممبرصوبائی اسمبلی شفیق شیر آفریدی، پیپلزپارٹی کی نگہت اورکزئی پرسنل سیکرٹری عدنان خان کے علاؤہ اہلیان جمرود نے بھی شرکت کی تھی۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ بچے کی موت کی شفاف انکوائری کی جائے اور ملوث ڈاکٹروں کے خلاف کاروائی کی جائے لیکن علاقے کے عوام سوال اُٹھا رہی ہے کہ کیا ہسپتال انتظامیہ اور سیاسی اشخاص کے درمیان جاری چپقلش میں بچے کی موت کے زمہ داران کو سزا ملے گی؟