بلاگزخیبر پختونخوا

آج میں اپنے بابا کی لاڈلی ہوں لیکن پیدائش پر ایسا نہیں تھا

انیلہ نایاب

ہر بیٹی والدین کے لئے رحمت اور بیٹا نعمت ہوتا ہے چونکہ بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں اسی لئے انکی پرورش پر اللہ تعالٰی کی جانب سے بہت انعامات ہیں اگر انسانوں کو ان انعامات کے بارے میں معلوم ہوا تو دنیا کی تمام مشقتوں اور تمام عیبوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انسان ہمیشہ بیٹی کی پیدائش کی دعائیں مانگیں گے.
حقیقت ہے کہ بیٹی, بیٹے سے زیادہ فرمانبردار ہوتی ہیں والدین کی زیادہ خدمت کرتی ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں لوگ یا تو اس بات سے غافل ہے یا پھر جان بوجھ کر بیٹی سے زیادہ بیٹے کو پسند کرتے ہیں تقریباً ہر گھر میں بیٹے کی پیدائش پر خوشی اور بیٹی کی پیدائش پر افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے.
بیٹی کا سب سے پہلا حق تب چھینا جاتا ہے جب وہ پیدا ہوتی ہے اور سب کہتے ہیں ہائے!لڑکی پیدا ہو گئی
اسی طرح جب ہمارے گھر میں میری پیدائش ہوئی تو سب نے یہی کہا ہائے!لڑکی پیدا ہوگئی اور زیادہ افسوس اس بات کی تھی کہ میں پانچویں بیٹی تھی جس پر میرے خاندان کے تمام افراد نے بہت افسوس کا اظہار کیا کچھ لوگ تو روئے بھی تھے سب کا یہی کہنا تھا کہ اسکو تو گھر میں وہ پیار وہ توجہ نہیں ملے گی جو اور بچوں کو ملتی ہے والدین کا پیار اور خاص طور والد کا پیارتو اسکے نصیب میں نہیں ہوگا۔
والد کا پیار بھٹتے بھٹتے پانچویں بیٹی تک پہنچے گا تو باپ کا پیارختم ہوجائے گا اور اسکے حصے میں کچھ بھی نہیں ہوگا۔لیکن یہ ساری باتیں اور لوگوں کے سارے انکشافات اسکے برعکس نکلے میرے گھر والوں اور خاص طور پر میرے والد کی طرف سے مجھے بہت پیار ملا۔


میرے والد اور میرے درمیان باپ بیٹی کا رشتہِ کم اور دوستی کا رشتہِ زیادہ پیدا ہونے لگا آج ہم ایک دوسرے کے گہرے دوست ہیں. اپنے والد کو بابا جان یا ابو کی بجائے انکے نام یعنی جہانگیر صاحب کے نام سے پکارتی ہوں۔
وہی لوگ جو غلط اندازے لگاتے تھے آج مجھے اور جہانگیر صاحب کو دیکھ کر رشک کرتے ہیں ویسے تو بہت ساری باتیں ہیں لیکن صرف ایک بات باپ بیٹی کے بارے میں بتاونگی۔
میں اور جہانگیر صاحب رات کو دیر تک بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں ایک رات وہ مجھے کہنے لگے چلو چائے بنا کر پلاؤ سب سو رہے ہیں کیونکہ میرا دل اپنی بیٹی کے ہاتھ کی چائے پینے کو کر رہا ہے. آپ سب نے دودھ پتی تو پی ہوگی لیکن لسی پتی کا مزا نہیں لیا ہوگا, اصل میں میں نے کبھی بھی چائے نہیں بنائی تھی لیکن چونکہ دوست(بابا جان) کی فرمائش تھی تو چائے بنانی لازمی تھی دودھ کی بجائے لسی فریج سے نکال کر اس میں پتی ڈال دی چائے اُبل کر عجیب سی ہوگئی میں نے اور دودھ ڈال دیا لیکن چائے کا رنگ اور بھی خراب ہوگیا میں نے سوچا شاید دودھ خراب ہے اپنے دوست کے سامنے چائے رکھ دی میرے دوست نے چائے مزے سے پی لی۔
اگلی صبح امی نے پوچھا کہ فریج میں لسی تھی وہ کہاں ہے تب مجھے یاد آیا کہ میں نے تو دودھ کی بجائے چائے لسّی میں بنائی تھی۔
تب امی کو جہانگیر صاحب نے بتایا کہ اسلئے چائے کا ذائقہ کچھ عجیب سا تھا لیکن مجھے چائے پینی ہی پڑی کیونکہ اگر میں چائے نہیں پیتا تو میری بیٹی برا مانتی اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میری بیٹی شرمندہ ہو تو بس میں نے چائے خاموشی سے پی لی۔
اللہ ہر بیٹی کو میرے بابا جا ن جیسا پیار کرنے والا والد دے آمین

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button