کورونا کی تیسری لہر : پشاور ہائیکورٹ کا ضروری نوعیت کے مقدمات سننے کا فیصلہ
محمد باسط خان
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ کورونا وباء کے تیسری لہر میں اضافے کے پیش نظر رمضان میں صرف نارمل نوعیت کے کیسز سنے جائیں گے۔ اس فیصلے پر جہاں وکلاء نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے تو وہاں پر سائلین نے اس فیصلوں کی التوا کا رونا رویا ہے۔
خیبر پختونخوا میں کورونا وباء کی تیسری لہر دن بدن زور پکڑ رہی ہے، کورونا کیسز میں اضافے کے پیش نظر چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس قیصر رشید خان نے ماہ رمضان کے دوران ریگولر مقدمات کی کاز لسٹ معطل کرنے کا اعلامیہ جاری کردیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے چار بینچز جس میں پشاور ہائی کورٹ ایبٹ آباد بینچ، ڈی آئی خان، بنوں اور مینگورہ بنچ شامل ہیں۔ یہاں رواں ماہ رمضان کے مہینے کو موشن ویک قرار دیا گیا ہے، جس کے تحت صرف ارجنٹ یعنی فوری نوعیت کے مقدمات اور عدالت کی جانب سے فکس کئے گئے مقدمات کی سماعت ہوگی۔
پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق خیبر پختونخوا کے تمام ڈسٹرکٹ کورٹس میں غیر قانونی حراست، ضمانتی درخواستوں ، عبوری حکم ناموں کیخلاف رٹ پٹیشن، متفرق درخواستوں اور دیوانی مقدمات کے متعلق مخصو ص پیٹشنز پر سماعت ہوگی۔
اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ کیس جن کو جلد حذف کرنے کی ضرورت ہے انکو جلد وکلاء تک پہنچایا جائے گا تاکہ کورٹ میں لوگ بلاوجہ آنے کی زحمت نہ کریں۔
اس حوالے سے جب ٹی این این نے وکلاء سے رابطہ کیا تو اس میں سے بعض وکلاء نے اس فیصلے کی تائید کی اور اسکو سراہتے نظر آئے، جبکہ کورٹ میں قانونی معاملات دیکھنے والے سائلین اس فیصلے سے کافی حد تک پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل سیف اللہ محب کاکا خیل نے بتایا کہ اس کورٹس میں کیسز کی شرح کم کرنے کی بجائے اس میں ہم نے ججز صاحبان کو ‘ای کورٹ’ شروع کرنے کا مشورہ دیا تھا جس سے وکلاء اپنے چیمبر سے آن لائن جج کے سامنے آپنے دلائل پیش کرسکیں گے۔ لیکن عدلیہ نے اس پر کوئی خاص غور نہیں کیا۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے ویڈیو لنک کے ذریعے جج صاحبان مردان ، کوہاٹ اور دیگر کورٹس سے وکلاء کے دلائل سنتے تھے لیکن اب وہ طریقہ کار بھٰی ختم کردیا گیا ہے کیونکہ وہ سروس صرف دو تین کورٹس میں دستیاب تھا۔
انہوں نے کہا کہ ‘ای کورٹس’ سے وکلاء کو بھی کافی فائدہ ہوگا اور وہ گھر بھیٹے اپنا دلائل تیار کرکے انہیں آن لائن بھیج سکتے ہیں۔
سیف اللہ نے کہا کہ بعض ججز صاحبان آن لائن سروس کو اچھی طرح نہیں سمجھتے اس لئے وہ "ای کورٹس” سروسز پر کافی دہان نہیں دیتے۔
چارسدہ ڈسٹرکٹ بار کے سابقہ صدر مجیب الرحمان ایڈوکیٹ نے عدلیہ کی اس حکم کی تائد کرتے ہیں اور کہا کہ کہ چیف جسٹس کے اس حالیہ حکم کے مطابق فوری سنے جانے والے مقدمات جن میں ضمانت، بلاوجہ وجہ کسی کی گرفتاری یا کسی کی بازیابی کے کیسز شامل ہے یا پھر ایسے مقدمات جسکو کورٹ نے خود فکس کردیا ہے، اس فیصلے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ انکا کہنا ہے کہ سب سے ضروری انسان کی جان ہے اگر کچھ وقت کے لئے ایسا فیصلہ کیا گیا ہے تو یہ عوام کے جان بچانے اور اس وقت کی اہم ضرورت ہے۔
انکا کہنا تھا کہ "میرے خیال سے اس فیصلے کا فائدہ یہ ہوگا کہ عدالتوں پر لوگوں کا رش کم ہوجائگا اور کورونا کیسز کی مزید بڑھنے کا خدشہ بھی نہیں ہوگا، بحیثیت وکیل میں چیف جسٹس ہائی کورٹ قیصر رشید کی اس فیصلے کی حمایت کرتا ہوں’۔
ایڈوکیٹ مجیب الرحمان نے کہا: چیف جسٹس نے صرف ان مقدمات کی سماعت ملتوی کی ہے جو ایک لمبے عرصے چلے آرہے ہیں، وہ کیسز جن میں کاروائی پوری نہیں ہوئی یا انکا پرو سیجر پورا نہیں ہوا یا کسی کیس میں جواب آنا ہے، یعنی ایسے کیسز جس میں کوئی بڑی کاروائی نہیں ہونے والی تھی۔
حکم پر سائلین کا ردعمل
جو لوگ جو اپنے رشتہ داروں یا اپنے خود کی قانونی معاملات سے عدالتوں میں گزرتے ہیں تو انہوں نے چیف جسٹس کے اس حکم پر تحفظات اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
چارسدہ سے تعلق رکھنے والے سید شاہ رضا شاہ کا اپنے بھائی کے خلاف کیس چل رہا ہے جسکے نتیجے میں وہ جیل میں پڑا ہوا ہے، ٹی این این کو بتایا کہ کورونا کے پھیلاؤ کے سدباب میں تو یہ اچھا فیصلہ ہے لیکن اس فیصلے سے ہمارا ٹرائل جو شرو ع ہوا ہیں مزید کافی ملتوی ہوچکا ہے جس کی وجہ سے جن لوگوں کے اپنے جو جیل میں پڑے ہیں۔ان کے گھروں میں بھی کافی بے چینی پائی جارہی ہیں کیونکہ ٹرائل ملتوی ہونے سے انکی رہائی کا معاملہ بھی ملتوی ہورہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عدالت میں ہمارے کیس کا ٹرائل تو ملتوی ہوچکا ہے لیکن اس سے ہمیں کافی نقصان کا سامنا بھی ہے کیونکہ وکلا صاحبان کو اب بھی ہمیں فیس دینا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ میرے یہ میرے بھائی کے بیوی بچوں کی حالت دیکھ لئے تو انتہائی افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے دلوں پر کیا گزر رہا ہے یہ صرف ہم جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر کورونا کی وجہ سے کیسز کی سماعت ملتوی کردی گئی ہے تو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ نے اس سے پہلے جو ہدایات دئے تھے کہ قتل اقدام قتل کے الزام میں گرفتار ملزمان کی کیسز کو تین ماہ کے اندر نمٹادیں، تو عدالت کو چاہئے کہ کم سے کم ان کیسز کی پروسیڈنگ کو تو جاری رکھے جسکی احکامت عدالت اعلیہ نے دی تھی۔