پاکستان آزادی اظہار کے حوالے سے مزید پانچ درجے نیچے چلا گیا؛ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈر
رفاقت اللہ رزڑوال
لکی مروت کے مقامی عدالت نے صحافی کے خلاف مقدمے میں ضمانت منظور کرلی۔ جمعرات کو ایڈیشنل سیشن جج کاشف دلاور کی عدالت میں صحافی کے وکلا نے پینل نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ محکمہ فوڈ نے صحافی غلام اکبر مروت کے خلاف گزشتہ ماہ دفعہ 189 (سرکاری ملازم کو دھمکی دینا)، 186(کارسرکار میں مداخلت) ، 506 (جان سے مارنے کی دھمکی) اور 3/6 فوڈ ایکٹ (بغیر نرخنامے کی گرانفروشی) کے تحت مقدمہ درج کیا تھا جو زمینی حقائق کے منافی اور بدنیتی پر مبنی عمل تھی۔
وکلا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انکے موکل کو باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا تھا کہ حکومت نے لکی مروت کے علاقہ میلہ مندرہ خیل کے لئے سرکاری آٹے کا کوٹہ 20 کلوگرام وزن کے 700 تھیلے مقرر کئے گئے مگر محکمہ فوڈ نے علاقے کو کم سپلائی جاری رکھتے ہوئے علاقے کے عوام کا استحصال کر رہی تھی۔
صحافی کے مقدمےمیں وکالات کیلئے پیش ہونے والے پینل میں سینئر وکلاء حبیب الرحمن، حاجی ولی الرحمن، فرمان خان، میر ہمایون خان، جاویداقبال ، سرمداقبال ، وارث فہیم ، کاظم رضاء اور یوسف خان شامل تھے۔
وکلا نے بتایا کہ انکے موکل نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرکے علاقے کو آٹے کی سپلائی والے ٹرک کے اندر ویڈیو بنائی، وکلا نے دلائل کے طور پر ویڈیو معزز عدالت کے سامنے پیش کی۔ ویڈیو میں دیکھا جارہا ہے کہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے ٹرک کی باہر کا حصہ آٹے سے بھرا پڑا نظر آ رہا ہے جبکہ اندر سے ٹرک خالی نظر آ رہی ہے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ چونکہ علاقے کو خوراک اور آٹے کی سپلائی کا اختیار ضلعی خوراک کے محکمے کے حوالے ہیں تو ویڈیو کے نتیجے میں اپنی خٗرد بُرد پر پردہ ڈالنے کیلئے متعلقہ پولیس سٹیشن میں صحافی کے خلاف مقدمات درج کئے۔
دوسری طرف سرکاری وکیل نے صحافی پر درج مقدمے میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منسوخی کیلئے دلائل مکمل کئے، جسکے کچھ دیر بعد ایڈیشنل سیشن جج نے ضمانت کی درخواست منظور کرلی۔
لکی مروت صحافیوں نے صحافی کی بی بی اے کنفرم ہونے کو حق اور سچ کا جیت قرار دیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ عوام کی فلاح، جمہوریت، آئین اور قانون کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
پاکستان میں صحافت کی صورتحال
آزادی اظہار رائے اور صحافتی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ صحافتی آزادی پر کام کرنے والے ادارے پاکستان میں صحافت کو خطرناک پیشہ قرار دیتے ہیں جسکی وجہ آزادی اظہار کے حوالے سے ہر سال پاکستان صحافتی رینکنگ میں نیچھے چلا جاتا ہے۔
پاکستان میں سینئر صحافی و تجزیہ کار حق نواز کٹی خیل کا کہنا ہے کہ حکومتی بدعنوانیوں اور خُرد بُرد بے نقاب کرنے پر صحافیوں کے خلاف مقدمات قائم کرنا یا انہیں قتل کرنا، تشدد اور اغوا کے ذریعے ڈرانا دھمکانا کوئی نئی بات نہیں لیکن ایسے اوچھے ہتکھنڈوں سے کسی کی آواز دبائی نہیں جاسکتی۔
حق نواز نے کہا کہ ملک بھر میں بیشتر متاثرہ صحافیوں کے ملزمان کو تاحال انصاف نہیں ملتا ہے اگر جزا اور سزا کا عمل یقینی بنایا گیا تو صحافیوں کے خلاف جرائم میں کمی آسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صحافت کے حقوق کے تحفط کے ادارے پاکستان کو صحافت کے حوالے سے خطرناک ترین ملک قرار دے رہے ہیں اور اُسکا عملی مظاہرہ حالیہ دنوں میں سینئر صحافی اور سابق پیمرا چئرمین ابصارعالم کو نامعلوم افراد کی جانب سے گولی مارکر زخمی کرنے کی شکل میں ہوا۔
"گولیاں مارنا، قتل کرنا، اغوا کرنا، تشدد کرنا یا جھوٹی ایف آئی آرز کی اندراج کا مطلب دوسرے آزاد، آئین اور جمہوریت پسند صحافیوں کو خاموش رہنے کا ایک پیغام ہوتا ہے مگر میرے خیال میں اطلاعات کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا اور یہ حکومت کی خام خیالی ہے۔”
حق نواز کٹی خیل سمجھتا ہے کہ صحافیوں یا صحافتی اداروں پر پابندی سے براہ راست نقصان ملک کا ہی ہوگا۔ انکے مطابق "پابندی کا مطلب صرف حکومتی یا ریاستی بیانئے کا پروپیگنڈا کرنا ہے جس کیوجہ سے تصویر کے دوسرے رُخ سے عوام محروم ہوجاتے ہیں تو دوسری رُخ کو جاننے کیلئے عوام انٹرنیشنل یا کسی آزاد میڈیا کا سہارا لیں گے اور پھر وہی میڈیا اپنے ایجنڈے کے مطابق پاکستان کے عوام کی ذہن سازی کریگی”۔
صحافت کے عالمی ادارے کیا کہتے ہیں؟
صحافیوں کے تحفظ اور میڈیا کی آزادی کے لیے غیر سرکاری عالمی تنظیم ‘رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز’ نے سال 2021 کی جاری کردہ رپورٹ میں صحافتی آزادیوں کی درجہ بندی کی ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں صحافیوں کیلئے پاکستان کو بدستور تشویشناک ملک قرار دیا ہے۔
رپورٹ میں 200 ممالک کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں پاکستان پچھلے سال کی نسبت مزید پانچ درجے نیچھے چلا گیا ہے اور امسال پاکستان کو رائے کی اظہار کی آزادی کے حوالے سے 139 سے 145 نمبر پر ڈالا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا، ویتنام، چین، ایران اور بھارت میں صحافتی آزادیوں کی حالات انتہائی خراب ہے۔ جبکہ ناروے، فن لینڈ اور سوئیڈن بہترین درجہ بندی کے ساتھ بالترتیب پہلے تین نمبروں پر ہیں۔
رپورٹ میں امریکہ کے حوالے سے بھی بتایا گیا ہے کہ یہاں پر بھی حساس معاملات پر رپورٹنگ صحافیوں کے لیے آسان نہیں رہی۔
‘رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز’ کی تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جولائی 2018 میں عمران خان کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد پاکستان میں سنسر شپ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جن میں ابلاغ عامہ کے اداروں پر بعض طاقتور اداروں کی طرف سے دباو ڈالنے کے مختلف طریقے استعمال کیے گئے۔
صحافیوں کے خلاف دہشت گردی، غداری اور دیگر مقدمات کیوں درج ہو رہے ہیں؟
رپورٹرز ود آوٹ بارڈر کے رپورٹ کے مطابق اگر کوئی ٹیلی ویژن یا صحافی حکومت کے خلاف جماعتوں کے کارکنوں کو ائیرٹائم دیتے ہیں تو اُنکے کام کو کسی نہ کسی طریقے سے روکا جاتا ہے یا کوئی صحافی یا ادارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے متعین کردہ حدود کے خلاف ورزی کرے تو "ایسے کئی واقعات سال 2020 میں آئے ہیں کہ صحافی کو اغوا کیا جاتا ہے تاکہ انہیں پیغام ہو کہ ایسے سٹوریز نہ کرے جو ناپسندیدہ ہو ورنہ آپکا خاندان سلامت نہیں رہے گا”۔
کیا اطلاعات تک رسائی عوام اور صحافی کا آئینی حق ہے؟
پاکستان کے 1973 کے دستور کے آرٹیکل 19 کے مطابق رائے کی اظہار ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور وہ یہ حق میڈیا کے ذریعے استعمال کرسکتا/ سکتی ہے تاوقتیکہ کہ اُنکے خیالات اور رائے سے اسلام کے وقار، ملکی سیکورٹی، دفاع، ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات، امن عامہ، شائستگی، اخلاقیات اور عدالتوں کے عزت کو نقصان نہ ہو۔
اسی طرح آئین کے آرٹیکل 19 کی ترمیم شدہ شق 19 اے کے مطابق معلومات تک رسائی ہر شہری کا ہے بشرطیکہ وہ معلومات کسی قانون کے خلاف نہ ہو۔
حکومت صحافیوں کے لئے کیا کر رہی ہے؟
صحافتی تنظیمیں صحافیوں کو درپیش مسائل کا زمہ دار موجودہ تحریک انصاف کا حکومت سجمھ رہے ہیں جسکے ازالے کے طور پر دوسری جانب گزشتہ روز نو تعینات وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری حسین نے صحافیوں کی حقوق کو محفوظ رکھنے کیلئے اپنے ٹویٹ میں اعتراف کیا ہے کہ صحافیوں نے ہمیشہ ملک و قوم کیلئے اپنی خدمات دئے ہوئے ہے، انہیں روزگار اور ذاتی رہائش فراہم کرنا حکومت کی ترجیح ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ اُنکی حکومت صحافیوں کو تنخواہیں اور انشورنس کی ادائیگی کیلئے قانون سازی کا سوچ رہی ہے۔
انکے ٹویٹ کے مطابق اُنکی پہلی ترجیح فلم اور ڈرامے تجدید کا عمل ہے۔ انکے مطابق نوجوان ڈرامہ اور فلم سازوں کو کامیاب جوان پروگرام سے پانچ کروڑ روپے تک قرضے کی سہولت دی جائیگی۔
ٹویٹ کے مطابق پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافیوں کو وزیرہاوسنگ سکیم سے ذاتی گھر اور صحت کارڈ کی سہولیات دینگے جبکہ ڈیجیٹل میڈیا کو فروغ دینا بھی حکومت کی ترجیح ہوگی۔