‘دس منٹ کی ریگولر کلاس ایک گھنٹہ آن لائن کلاس سے بہتر ہے ‘
رانی عندلیب / سدرہ آیان
‘کورونا وائرس کی پہلی لہر میں جب تعلیمی ادارے بند ہوئے تو میں بہت خوش تھی اور یہ سوچتی تھی کہ چھٹیوں کے دوران میں دوستوں کے گھر جاونگی۔ لاہور میں میرے چاچو رہتے ہیں وہاں جاونگی اور خوب موج مستی کرونگی تاہم ایسا نہیں ہوا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے میں کہی بھی نہیں جاسکی’
پشاور کے وزیر باغ سکول میں جماعت دہم کی طالبہ ملائکہ اس بار سکول بند ہونے پر خوش نہیں ہے اور وہ اپنے تعلیمی مستقبل کے بارے میں فکر مند ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ملائکہ کا کہنا تھا کہ سکول بند ہونے کی وجہ سے ان کی تعلیم پر بہت برا اثر پڑا ہے کیونکہ گھر میں سکول جیسا ماحول اور پڑھائی کرنا ممکن نہیں جبکہ ملائکہ کے والدین اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ بیٹی کو پرائیوٹ ٹیوشن میں پڑھائے۔
‘ میرے والد کی اتنی آمدنی نہیں ہے کہ وہ مجھے ٹیوشن سنٹر میں داخلہ کروا سکے ۔ میں سائنس پڑھتی ہوں اور اس کی ٹیوشن فیس زیادہ ہوتی ہے جبکہ ٹیوشن اکیڈمی بھی ہمارے گھر سے بہت دور ہے اور میں اکیلی ٹیوشن سنٹر نہیں جاسکتی اور ویسے بھی ان حالات میں اکیلے باہر جانا ٹھیک نہیں ‘
ملائکہ کے مطابق پہلے وہ بہت خوش تھی کہ بغیر امتحان کے پروموٹ ہوگئی ہے لیکن اب انہیں اندازہ ہوگیا ہے کہ سکول بند ہونے اور بغیر امتحان کے پاس ہونے کی وجہ سے نہ صرف ان کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے بلکہ وہ بغیر کچھ سیکھے اگلے جماعت میں چلی جاتی ہے جس کا مستقبل میں انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
ملائکہ کے علاوہ دیگر طالبات بھی اپنی تعلیمی مستقبل کے بار میں فکرمند ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا۔
ضلع مردان کے شیخ ملتون ڈگری کالج میں پڑھنے والی ملیحہ نے ٹی این این کو بتایا کہ جب سے تعلیمی ادارے بند ہوئے ہیں ان کے سیکھنے کا عمل بھی رک گیا ہے۔
ملیحہ کے مطابق پہلے جب وہ کالج سے گھر آتی تھی تو بڑی بیٹی ہونے کے ناطے وہ گھریلوں کاموں میں اپنی ماں کی مدد کرتی تھی تاہم لاک ڈاؤ ن کی وجہ سے اب انہیں گھر میں زیادہ کام کرنا پڑتا ہے ۔
‘ میرے ان لائن کلاسز ہوتے ہیں تاہم میرے لئے پہلا مسلہ یہ ہے کہ میرے پاس اپنا موبائل نہیں اور جب میری کلاسز ہوتے ہیں تو میں اپنے والد کا موبائل استعمال کرتی ہوں لیکن میرے والد کام کے سلسلے میں اکثر باہر ہوتے ہیں اور جب وہ گھر واپس آتے ہیں تو میری دوتین کلاسز مجھے سے مس ہوچکی ہوتی ہیں ‘
ملیحہ نے بتایا اگر ہم دس منٹ کی بھی ریگولر کلاس لے لیں تو ہم بہت کچھ سیکھ جاتے ہیں بجائے آن لائن کلاسز کے کیونکہ ریگولر کلاسز میں ہم سوالات پوچھتے ہیں ، گروپ ڈسکشن کرتے ہیں جبکہ ان لائن میں نیٹ ورک کا بہت مسلہ ہوتا ہے ۔
ملیحہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی مستقبل کے بارے میں پریشانی کا شکار ہوچکی ہے کیونکہ سال گزر گیا لیکن جیسے پڑھنا تھا ویسے ہم پڑھ نہیں سکے کیونکہ جب سے تعلیمی ادارے بند ہوگئے تو گھر والے کہنے لگے کہ بس انکی تو چھٹیاں ہوگئی حالانکہ وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ ان لائن کلاسز میں ریگولر سے بڑھ کر محنت کرنی ہوتی ہے۔
اساتذہ کا کیا موقف ہے ؟
طلبہ کی طرح اساتذہ بھی حکومت کی جانب سے سکولز بندش سے ناخوش دیکھائی دیتے ہیں اور وہ سمجتھے ہیں کہ سکولز بندش لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کے لیے زیادہ نقصان دہ ہے۔
پشاور لنڈی ارباب سکول کی استانی سعدیہ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ایک کے بعد دوسری اور تیسری دفعہ سکولز کی بندش سے لڑکیوں کی تعلیم بہت متاثر ہوئی ہے جبکہ گاؤں میں نہ ہی لڑکیوں کے لیے آن لائن کلاسز کی سہولت ہے اور نہ ہی لڑکیاں لڑکوں کی طرح ٹیوشن جاکر اپنی سکول کی کمی کو پورا کر سکتے ہیں.
سعدیہ کے بقول سکولز بندش کے باعث انہوں نے بچوں کو صحیح طریقے سے کورس نہیں پڑھایا جبکہ اگر یہی چھٹیاں مزید بڑھ گئی تو بچوں کی پڑھائی مکمل طور پرمتاثر ہوجائے گی ۔
حکومت کیا کہتی ہے ؟
اگر ایک طرف طلبہ اور اساتذہ حکومت کے اس فیصلے کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تو دوسری جانب تعلیمی ادارے اور تعلیمی آفیسر حکومت کے اس فیصلے کو وقت کی ضرورت سمجتھے ہیں ۔
ضلع پشاور میں بطور تعلیمی آفیسر فرائض سر انجام دینے والی ثمینہ غنی کے مطابق کورونا وائرس کی تیسری لہر کی وجہ سے صرف خیبرپختونخوا نہیں بلکہ پورے ملک میں تعلیمی ادارے بند کئے گئے ہیں جس کا مقصد کورونا وائرس سے بچوں کی حفاظت کرنا ہے ۔
بقول ثمینہ حکومت نے جو فیصلہ کیا ہے وہ بلکل درست ہے اور اس وقت سکولز بند ہونے میں ہی آفیت ہے کیونکہ پورے ملک میں یہ وباء بہت تیزی سے پھیل رہی ہے اور اب بڑے عمر کے لوگوں سمیت چھوٹے بچے بھی اس وائرس سے متاثر ہونے لگے ہیں اس لئے حکومت کی جانب سے سکولوں کی بندش بہت اچھا اقدام ہے ۔
لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ثمینہ نے بتایا کہ جس طرح لڑکوں کی تعلیم ضروری ہے اس طرح لڑکیوں کا بھی حق بنتا ہے کہ وہ اعلی تعلیم حاصل کرکے ملک و قوم کا نام روشن کریں ۔
ان کے مطابق صوبائی حکومت نے صوبے کے مختلف اضلاع میں لڑکیوں کے سکولز بنائے ہیں تاہم والدین کو بھی چاہے کہ وہ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کی تعلیم پر بھی توجہ دے۔