کیا واقعی انٹرنیٹ نے ہمیں لائبریری سے دور کر دیا ہے؟
سمن خلیل
‘پانچ سال پہلے ہمارے پاس کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور زیادہ ترلوگ یہاں مطالعہ کرنے آتے تھے لیکن وقت گزرنے اور ٹیکنالوجی کے بے حد استعمال کی وجہ سے آج کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد میں کافی کمی آئی ہیں اور اب بہت کم لوگ لائبریری کا رخ کرتے ہیں’
پشاور کے سب سے قدیم سینٹرل لائبریری کے لائبریرین طاہر جان کے مطابق ایک وقت تھا جب فارغ اوقات میں طلبہ نصابی کتب کے علاوہ بھی کتاب کا مطالعہ کرتے تھے ، یہاں تک کہ گلی محلے اور بازاروں میں لائبریریاں قائم تھیں جس سے نہ صرف طالب علموں کی معلومات میں اضافہ ہوتا تھا بلکہ یہ کتب پشتو، اردو اور انگریزی کے ذخیرہ الفاظ میں اضافے کا سبب بھی بنتی تھیں۔
طاہر کے بقول آج کل زیادہ تر لوگوں کی توجہ سوشل میڈیا پر ہے اور وہ زیادہ تر وقت انٹرنیٹ پر گزارتے ہیں اسی وجہ سے ان کا دھیان کتابوں سے دور ہوگیا ہے اور اگر کوئی مطالعہ کرنے شوق رکھتا ہے تو وہ ان لائن کتابیں پڑھتے ہیں۔
طاہر جان نے بتایا کہ ‘چونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے جب لاک ڈاؤن نافذ ہوا تو لوگ گھروں میں محصور ہوگئے اور ان کے لئے باہر نکلنا مشکل ہوگیا اسی وجہ ان کی رسائی کتابوں تک ہو پاتی تبھی وہ سوشل میڈیا کی طرف چلے گئے اور وہاں سے استفادہ حاصل کرنے لگے ہیں’
تاہم دوسری جانب کتاب پڑھنے کے شوقین کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی دن بہ دن ترقی کررہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو گھربیٹھے ہی تازہ معلومات فراہم ہوتی ہے اسلئے لوگوں کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑھتی۔
پشاور یونیورسٹی میں جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ مشال خان بھی باقاعدہ طور پر لائبریری جاتی تھی اور وہاں مطالعہ کرتی تھی لیکن رفتہ رفتہ انہوں نے لائبریری جانا چھوڑ دیا اور اب وہ انٹرنیٹ کے ذریعے کتابیں پڑھنے کا شوق پورا کرتی ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے مشال نے بتایا کہ ‘ لائبریری سے دوری کی سب سے بڑی وجہ انٹرنیٹ کی فراہمی ہے کیونکہ جب سے ہمیں گھر پر انٹرنیٹ کی سہولت فراہم ہوئی ہیں ہمارے بہت سے مشکلات کم ہوئی اور گھر بیٹھے ہی ہم اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورے کرتے ہیں’
مشال کے مطابق یہ حقیقت ہے کہ انٹرنیٹ نے ہمیں بہت سی سہولیات فراہم کی ہے لیکن لائبریری میں کتابیں پڑھنے اور وقت گزرنے کا اپنا ہی مزہ تھا جو کہ ان لائن مطالعہ میں نہیں ہے۔
دوسری جانب کچھ طالبعلم کا کہنا ہے کہ بے شک انٹرنیٹ پر انہیں بہت سی چیزیں آسانی سے مل سکتی ہیں تاہم اگر کتابوں کی بات کی جائیں تو کچھ ایسے کتابیں بھی ہے جس کا لائبریری کے علاوہ کسی دوسری فلیٹ فارم پر ملنا ناممکن ہے۔
زونا جاوید بھی اس سلسلے میں لائبریری پڑھنے جاتی ہیں کیونکہ ان کے بقول لائبریری میں بہت سی ایسی کتابیں موجود ہے جوکہ ہمیں انٹرنیٹ پر نہیں ملتی اور پڑھنے کیلئے نایاب ہے۔
زونا نے ٹی این این کو بتایا کہ اگر ہم شہر کی بات کریں تو یہاں ہمیں لائبریری جانے اور انٹرنیٹ پر کتابیں پڑھنے کی سہولت موجود ہے تاہم دیہاتی علاقوں میں نہ تو لائبریری ہوتی ہے اور نہ ہی خواتین کو یہ اگاہی ہوتی ہے کہ وہ انٹرنیٹ کےذریعے کتاب بینی کا شوق کو پورا کرسکیں اسلئے ضروری ہے کہ شہروں کے ساتھ دیہاتی علاقوں میں بھی لائبریریاں کھول دی جائیں تاکہ وہاں کے طالبہ وطالبات بھی اس سے استفادہ حاصل کرسکیں۔