”پشتو” کو ماں سمجھنے والے ڈاکٹر حبیب احمد بھی اللہ کو پیارے ہو گئے
عثمان خان
اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے سابق وائس چانسلر اور ہزاروں طلباء کے استاد، پروفیسر ڈاکٹر حبیب احمد بھی کرونا کے باعث اللہ کو پیارے ہو گئے، ان کی نماز جنازہ آبائی علاقہ مٹہ (سوات) میں ادا کی گئی۔
ڈاکٹر حبیب مرحوم ایک منکسر المزاج انسان تھے، ہر کسی کے ساتھ خندا پیشانی سے پیش آتے تھے، اسلامیہ کالج میں پشتو زبان کے لئے انہوں نے کافی تگ و دو کی تھی حالانکہ ان کے پیشرو، سابق وائس چانسلر اجمل خان، نے اس شعبہ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا کہ اس کی وجہ سے ادارے کو خسارے کا سامنا ہے۔
لیکن ڈاکٹر حبیب نے عہدہ سنبھالنے کے بعد جو پہلا آرڈر جاری کیا وہ یہ تھا کہ آپ صرف ایک بچے کو داخلہ دلوا کر اس شعبہ کو قائم کریں، اس کے بعد پشتو ڈپارٹمنٹ میں داخلے کی آدھی فیس معاف کرنے کا اعلان کیا۔ وہ ہمیشہ کہتے، ”پشتون زبان ہماری ماں ہے اور ماں کو زریعہ آمدن نہیں بناتے بلکہ اس پر خرچ کرتے ہیں۔” آج بھی ان کے طفیل شعبہ پشتو میں طلباء آدھی فیس جمع کرتے اور ہشتو زبان پڑھتے ہیں، اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے!
پروفیسر ڈاکٹر حبیب احمد مرحوم اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے علاوہ ہزارہ یونیورسٹی کے بھی وائس چانسلر رہ چکے ہیں، مرحوم انتہائی شفیق استاد تھے اور اپنی دریس و تدریس کی زندگی میں انہوں نے اپنے بس سے زیادہ خدمات انجام دی ہیں، آج ہر اہل قلم اس کی گوہی دیتا ہے۔
پروفيسر اباسين يوسفزئي اسلاميه کالج يونيورسٹی میں شعبہ پشتو کے سرپرست ہیں، کہتے ہیں، ”مرحوم پروفسیر ڈاکٹر حبیب احمد سے میرا تعلق اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں ان کے بطور وائس چانسلر تعیناتی سے پہلے کا ہے، اسلامیہ کالج یونیورسٹی کیلئے ان کی گراں قدر خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں پروفیسر اباسین یوسفزئی نے بتایا کہ نے مرحوم بطور وائس چانسلر یونیوسٹی کی باگ ڈور سنبھالی تو انھوں اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے وہ دیرینہ اور حل طلب مسائل نمٹائے جو کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی کیونکہ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ ملنے کے بعد طلباء کی پڑھائی کیلئے جگہ بالکل نہیں تھی اور یونیورسٹی کا سارا دارومدار کالج کی بلڈنگ پر تھا لیکن ڈاکٹر حبیب نے انتہائی مہارت کے ساتھ اس مسئلے کا حل نکالا اور نئے بلاکس بنانے کی داغ بیل ڈالی۔
اباسین یوسفزئی نے بتایا کہ تعمراتی کام کے ساتھ ساتھ پروفیسر صاحب نے اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں کئی نئے شعبہ جات شروع کئے اور ریسرچ کے کام میں تو ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، ”پروفیسر حبیب احمد یونیورسٹی کے سٹاف اور طلباء کے حقوق مسائل حل کیا کرتے تھے اور ہر وقت اس کام میں مگن رہتے تھے۔”
اباسین یوسفزئی نے آخر میں بتایا کہ مرحوم پروفیسر حبیب احمد ایک نڈر، صاف گو انسان تھے اورجو بات دل میں ہوتی تھی وہی زبان پر لاتے تھے، ”بعض لوگ اس وجہ سے ان کی مخالفت بھی کرتے تھے لیکن اپنے مفادات کی خاطر۔”
مرحوم پروفيسر حبيب احمد کا بنيادي تعلق ضلع سوات کی تحصیل مٹہ سے تھا، آپ کی تاریخ پیدائش 13 جولائی 1959 ہے، ڈاکٹر صاحب نے میٹرک تک تعلم گورنمنٹ ہائی سکول مٹہ، ایف ایس سی گورنمنٹ ڈگری کالج مٹہ، بی ایس سی (بائیو) گورنمنٹ جہانزیب کالج سیدو شریف، ایم فل (Cytogenetics) پشاور یونیورسٹی اور اسی شعبے میں یونیورسٹی آف پنجاب سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔
پروفیسر ڈاکٹر حبیب احمد کو ان کی ریسرچ میں اعلی خدمات کے اعتراف مین 23 مارچ 2011 کو صدر پاکستان نے تمغه امتياز سے نوازا تھا، اس کے علاوہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے ان کو بہترین یونیورسٹی استاد کا ایوارڈ بھی ملا تھا، اس کے ساتھ دو ہزار گیارہ سے دو ہزار سولہ تک ان کو مسلسل Productive Scientist of Pakistan Award ایوارڈ سے بھی انہیں نوازا گیا جو کہ ایک ریکارڈ ہے، قصہ مختصر یہ کہ پروفیسر مرحوم کو ملنے والے ایوارڈز کی فہرست بہت طویل ہے اور بلاشبہ آپ اس سے زیادہ کے حق دار تھے۔
اور بالیقین ان کا اصل ایوارڈ وہ سینکڑوں طلباء ہیں جو ان کے طفیل پشتو زبان سیکھ اور پڑھ کر آج مختلف شعبہ ہائے زندگی میں قوم اور پشتو زبان کی خدمت کر رہے ہیں اور جن کے دلوں میں ڈاکٹر حبیب ہمیشہ زندہ رہیں گے۔