کیا پی او آر کارڈز کی تجدید کے عمل میں افغان خواتین کے خدشات درست ہیں؟
افتخار خان
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر نے حکومت پاکستان کے تعاون سے پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈز کی تجدید اور انہیں بائیو میٹرک بنانے کی مہم شروع کردی ہے لیکن چند مہاجرین نے شکوک ظاہر کئے ہیں کہ مہم میں ڈیٹا اندراج اور تصاویر کے لئے خواتین سٹاف کو نہیں لیا گیا گیا ہے جس کی وجہ سے مہم متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ دوسری جانب یو این ایچ سی آر نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
یو این ایچ سی آر نے تجدید کاغذات کے اس مہم کو ڈرائیو (ڈاکومنٹس رینیول اینڈ انفارمیشن ویریفیکیشن ایکسرسائز) کا نام دیا ہے جس کا مطلب ہے دستاویزات کی تجدید اور معلومات کی تصدیق کا مشق۔ اس مشق کے لئے یو این ایچ سی آر نے نادرا، افغان کمشنریٹ اور سیفرون وزارت کی شراکت سے ملک بھر میں چالیس مراکز قائم کئے ہیں جن میں اکیس خیبرپختونخوا میں ہیں۔
یو این ایچ سی کے مطابق ان میں سے چند مراکز میں تجرباتی طور پر یہ عمل شروع کردیا گیا ہے جبکہ بائیومیٹرک کارڈز بنانے کا باقاعدہ کام یکم اپریل سے شروع ہوگا جو کہ زیادہ سے زیادہ چھ مہینوں تک جاری رہے گا۔
یہ کارڈز صرف ان مہاجرین کو فراہم کئے جائیں گے جن کے پاس 31 دسمبر 2015 کو ایکسپائر ہونے والے پی او آر کارڈز موجود ہوں گے۔ نئے کارڈ کے لئے ان کا ذاتی انٹریو، تصاویر اور انگلیوں کے نشانات لئے جائیں گے۔
مشق پر مہاجرین کے اعتراضات
چند افغان مہاجرین کو اعتراض ہے کہ ڈیٹا انٹری کے لئے نادرا کی جانب سے بھرتی کئے جانے والے افراد میں خواتین شامل نہیں ہے جس کی وجہ سے خدشہ ہے کہ افغان خواتین اس عمل میں زیادہ حصہ نہ لیں۔
اس حوالے سے پاکستان میں مقیم افغان نوجوانوں کی تنظیم افغان سٹوڈنٹس یوتھ ریسرچرز ایسوسی ایشن کے صدر رحیم جان نے کہا ہے کہ انہیں سٹاف میں خواتین کی عدم موجودگی کی معلومات یو این ایچ سی آر کے چند زرائع سے ہی ملی ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے رحیم جان نے کہا کہ افغان لوگ اس معاملے میں کافی سخت ہیں اور بہت سے لوگ کبھی بھی اپنی خواتین کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ مردوں سے تصاویر بنوائیں اور انگوٹھے لگوائیں، خواتین خود بھی اس میں ہچکچاہٹ محسوس کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ دس سال قبل پی او آر کارڈز کے بنانے کے وقت بھی یہ مسئلہ درپیش آیا تھا جس میں خواتین نے تصاویر نکلوانے سے انکار کردیا تھا اور تب پھر کارڈز پر تصاویر کے خانے میں ان کے انگوٹھے لگوانے پر اکتفا کیا گیا تھا۔
رحیم جان کا کہنا ہے کہ افغان خواتین پہلے سے ہی ان کارڈز کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتی کیونکہ انہیں بظاہر اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ وہ سمجھتی ہیں کہ کارڈز کی موجودگی مردوں کے لئے زیادہ ضروری ہے کیونکہ انہیں اکثر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کارڈز کا پوچھتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں خواتین سے کبھی بھی کارڈ کا نہیں پوچھا جاتا۔
تاہم پشاور میں رہائش پذیر افغان خاتون اور استاد محبوبہ ان سے اختلاف رکھتی ہے۔ ٹی این این سے بات چیت میں محبوبہ نے کہا کہ اگر ان مراکز میں خواتین سٹاف کو تعینات کیا جائے تو بہت اچھی بات ہے لیکن وہ یہ نہیں سمجھتی کہ خواتین مردوں سے تصاویر نکلوانے یا انگوٹھے کے نشان لگوانے میں زیادہ ہچکچائے گی۔ "جو قانونی تقاضے ہوتے ہیں وہ سب کو پورے کرنے ہوتے ہیں چاہیں ان کی مرضی ہو یا نہ ہو”۔ انہوں نے بتایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مہاجرین کے پی او آر کارڈ ترمیمی مراکز (پی سی ایم سنٹرز) میں بھی تو خواتین نہیں ہے لیکن پھر بھی وہاں تمام افغان خواتین ڈیٹا انٹری اور کارڈز میں ترامیم کے لئے جاتی ہیں۔
دوسری جانب یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر خان نے بھی ان کا خدشہ بے بنیاد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ نادرا کی جانب سے قائم کردہ مراکز میں آنے والی خواتین کے لئے خواتین سٹاف ضرور موجود ہوگا۔
بائیومیٹرک کارڈ کے فوائد
اس مشق کے دوران پاکستان میں پی او آر کارڈز رکھنے والے تقریبا 14 لاکھ مہاجرین کو بائیومیٹرک کارڈز جاری کئے جائیں گے جس سے حکومت پاکستان اور یو این ایچ سی آر کے پاس ان مہاجرین کی شناخت کا قابل اعتماد ڈیٹا ہاتھ آئے گا جو کہ مستقبل میں ان کو صحت، تعلیم، امداد اور افغانستان رضاکارانہ واپسی کی صورت میں نقد امداد کی فراہمی میں مددگار ثابت ہو گا۔
افغان خاتون استاد محبوبہ نے بھی کارڈز کی تجدید اور بائیومیٹرک کارڈز کا اجرا ایک خوش آئند قدم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے مہاجرین میں کچھ حد تک تحفظ کا احساس پیدا ہوگا۔ "موجودہ پی او آر کارڈز دسمبر 2015 میں ایکسپائر ہوچکے ہیں جس کے بعد سے حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں ہر سال کبھی چھ مہینے اور کبھی ایک سال کی توسیع دی جاتی ہے جس سے مہاجرین تذبذب کا شکار تھے کہ انہیں ایک دم سے ہی یہاں سے نکلنے کا حکم دیا جائے گا۔ اب چونکہ بائیومیٹرک کارڈز بن رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت پاکستان ان مہاجرین کو ایک دم سے یہاں سے نکالنے کا ارادہ نہیں رکھتی جو کہ ہمارے لئے باعث اطمینان ہے” افغان خاتون نے بتایا۔
پشاور میں مقیم صحافی انورزیب نے بھی افغان مہاجرین کے لئے بائیومیٹرک کارڈ کا اجرا وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے نہ صرف جعلی کارڈز کا خاتمہ ہوجائے گا بلکہ حکومت پاکستان نے مہاجرین کو جو یہاں بینکس میں اکاونٹس کھلوانے کی اجازت دی ہے، کارڈز کی تجدید سے اس سہولت سے زیادہ تیز اور محفوظ انداز میں فائدہ حاصل کیا جاسکے گا۔
دستاویزات کی تصدیق اور بائیومیٹرک کارڈ بنانے کا طریقہ کار اور مقصد
یو این ایچ سی آر کے مطابق اس مشق میں ان تمام مہاجرین کو ڈرائیو سنٹر آنا لازمی ہوگا جن کے پاس پی او آر کارڈز موجود ہیں۔ دستاویزات کی تصدیق و تجدید میں مہاجرین کے ان پانچ سال سے کم عمر بچوں کا بھی اندراج ہوگا جو پہلے سے رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ پی او آر کارڈ کے حامل افراد کے دیگر غیررجسٹرڈ افراد کا بھی ریکارڈ درج کیا جائے گا جن کے پی او آر کارڈز نہیں بنے ہیں۔ خاندان کے ایسے افراد میں صرف بیٹا، بیٹی، شریک حیات اور والدین شامل ہیں اور مشق میں ان کے لئے الگ بائیومیٹرک کارڈ نہیں بنے گا بلکہ ان کا صرف ریکارڈ درج ہوگا۔
یو این ایچ سی آر کے مطابق دستاویزات کی تصدیق و تجدید تین مراحل میں ہوگی۔
پہلے مرحلے میں پی او آر کارڈ رکھنے والے کو اپنے قریبی مرکز سے ٹیلی فون پر دن اور وقت لینا لازمی ہوگا۔ 15 مارچ سے ان مراکز کے رابطہ نمبرز جاری کئے گئے ہیں جن پر کال کرنے کے بعد ہر ایک کو سنٹر آنے کی تاریخ اور وقت بذریعہ ایس ایم ایس بھیج دیا جائے گا۔
اس ضمن میں یو این ایچ سی آر نے وضاحت جاری کردی ہے کہ یہ مہم افغان سیٹیزن کارڈ(اے سی سی) رکھنے والوں کے لئے نہیں ہے لہذا وہ مرکز آنے یا وقت مانگنے سے گریز کریں۔
دوسرے مرحلے میں پی او آر کارڈ ہولڈر مہاجرین اور ان کے اہل خانہ کے تمام افراد کو اپنے کارڈز سمیت الاٹ شدہ مرکز آنا ہوگا جہاں ان کے ذاتی انٹریوز، تصاویر اور انگوٹھیوں کے نشانات لئے جائیں گے۔
تیسرے مرحلے میں انٹریوز اور چند ہفتوں کی ضروری کاروائی کے بعد مہاجرین کو نئے بائیومیٹرک کارڈز جاری کئے جائیں گے۔ انٹریوز کے چند ہفتوں بعد افغان مہاجرین اپنے پی او آر کارڈ کا نمبر 8400 پر ایس ایم ایس کرکے اپنے نئے کارڈ کا سٹیٹس معلوم کرسکتے ہیں کہ آیا بن کر مرکز پہنچ چکا ہے یا نہیں۔
یو این ایچ سی آر نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ جو پی او آر ہولڈر مہاجرین اس مشق میں حصہ نہیں لیتے تو ان کے کارڈز مشق کے اختتام پر ایکسپائر تصور ہوں گے جس کے بعد وہ لوگ شائد صحت و تعلیم کے سہولیات اور رضاکارانہ واپسی کے لئے یو این ایچ سی آر کے طے شدہ نقد رقم بھی حاصل نہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں بھی ان کی تقل حرکت محدود ہوسکتی ہے۔
کیا چھ مہینوں میں 14 لاکھ افراد کا اندراج اور کارڈ بنانا ممکن ہے؟
یو این ایچ سی آر کی جانب سے عوام الناس کے لئے جاری کردہ ہدایات کے مطابق یہ دستاویزات کی تصدیق و تجدید کا مشق صرف چھ مہینوں تک چلے گا جبکہ اس منصوبے کے بجٹ اور دیگر امور کے مجوزہ دستاویزات کے مطابق یہ پورا منصوبہ ایک سال میں مکمل ہوگا جو کہ یکم جنوری 2021 سے شروع ہوگیا ہے اور 31 دسمبر تک جاری رہے گا۔
دستاویزات کے مطابق اس منصوبے میں روزانہ کے بنیاد پر8000 تک مہاجرین کے کاغذات کی تصدیق کی جائے گی۔
منصوبے پر خرچ کتنا آئے گا؟
یو این ایچ سی آر کے دستاویزات کے مطابق اس پورے منصوبے کے لئے 96.6 ملین ڈالرز ( 15ارب روپے) کی ضرورت ہے جبکہ اس کے علاوہ منصوبے کی تیاری پر بھی 4 ملین ڈالرز تک خرچ ہوچکے ہیں جس میں سافٹ وئیر کے قیام اور تجرباتی طور پر کارڈز کی تیاریوں کے خرچے شامل ہیں۔