وہ بدقسمت گھر جہاں دو جوان بھائیوں کے جنازے ایک ساتھ لائے گئے
سی جے طارق عزیر
‘بھائی نے آکر خبر دی کہ آپ کا ایک بیٹا کوئلہ کان میں شہید ہوگیا ہے ۔یہ سن کر مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی لیکن پھر سوچا اللہ نے دو بیٹے دئیے ہیں چلو ایک تو زندہ ہے لیکن کیا معلوم قیامت نے تو مجھ سے میرے دونوں جوان بیٹے چھین لیے۔ دو کمروں کے کچے مکان میں مقیم بخت بی بی نے اپنے نواسے کو گود میں اٹھا کر پیار سے کہا بیٹا میں تمہیں کبھی بھی کوئلہ کان میں مزدوری کرنے نہیں دونگی ‘
شانگلہ کے یونین کونسل ڈھیرئی کے مین سڑک سے تقریبا 10 منٹ کے پیدل مسافت پر واقع گاؤں زڑہ کے اس گھرانے کو ایک ہفتہ پہلے تک زیادہ سہولیات میسر نہ تھی لیکن ان کی زندگی اطمینان سے بھری تھی، پھر وہ دن آگیا جب گھر کے دونوں جوان مزدوری سے خود واپس آنے کی بجائے ان کی جلی ہوئی لاشیں لوگوں کی کندھوں پر گھر پہنچ گئی۔
اس چھوٹے سے گھر میں ان کی بوڑھی ماں بخت بی بی اب اپنی جوان بیوہ بہو اور 2 نواسوں کے ساتھ زندگی کی شب و روز کاٹ رہی ہیں-
ان کا کہنا تھا کہ جب گھر میں ایک کی بجائے دو تابوت پہنچے تو گویا پاوں کے نیچے سے کسی نے زمین کھینچ لی، 2 جوان بیٹے رزق کی تالاش میں اپنی زندگیاں ہارچکے تھے-
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے بخت بی بی نے بتایا کہ اخری بار بڑے بیٹے نے اپنے ساتھ چھوٹا بھائی کو بھی لے کر گیا کہ ایک بندے کی مزدوری کے پیسوں سے گھر کا خرچہ ہوجائے گا اور دوسرے کے پیسے بچت کرکے اپنے لئے گھر بنائیں گے لیکن سارے آرمان قبر میں لے گئے-
بخت بی بی کی بہو سکینہ بی بی کو بھی اس قاتل کوئلہ کان نے جوانی میں بیوہ بنادیا، جو اپنے 2 بچوں چار سالہ کاشف اور دو سالہ رخسار اور ساس کے ساتھ زندگی کی شب و روز کاٹ رہی ہیں۔
‘میں اگر کوئلے کے کان میں مرگیا تو کم ازکم میرے بچوں اور آپ کو پیسے تو مل جایئں گے’
22 سالہ سکینہ اپنے خاوند کے کوئلہ مزدوری کیلئے رخصتی کے وقت اخری الفاظ کو یاد کرتے ہوئے روپڑی-
چار سالہ کاشف نے اب سکول جانا شروع کیا ہے اور گاوں کے گورنمنٹ پرائمری سکول میں پڑھتے ہے- کاشف کی ماں نے بتایا کہ "انہیں سوکھی روٹی گھر پہ قبول ہے لیکن یہ بچہ کبھی بھی کوئلہ کان میں مزدوری کے لئے نہیں بھیجے گی”
پاکستان میں کوئلہ کان مزدور کی زندگی کسی اذیت سے کم نہیں۔ آئے روز مختلف حادثات میں یہ مزدور زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود غربت کی وجہ سے مجبورا لوگوں کو موت کے منہ میں جانا پڑتا ہے جن میں زیادہ تر مزدوروں کا تعلق شانگلہ سے ہے۔
ڈان نیوز کے ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بلوچستان میں 72 حادثات ہوئیں جن میں سے 100 کان کن زندگی کی بازی ہار گئے-
بلوچستان میں گزشتہ ایک ہفتے میں یہ دوسرا واقعہ ہے جس میں کل 13 مزدور کان کے اندر مرگئے- ہرنائی کے کوئلہ کان میں مرنے والوں میں پانچ مزدور جبکہ دو ریسکیو اہلکار بھی شامل ہیں-
کوئلہ کان مزدوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی مقامی تنظیم "سموا” کے عہدیدار عابد یار نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کان کنوں کے حالات انتہائی ابتر ہے اور ان کے ساتھ جاری سلوک غیرانسانی ہے-
عابدیار کے مطابق کسی بھی سرکاری محکمے کے کان کنوں کے اموات اور معذوری کے متعلق اعداد وشمار موجود نہیں انہوں نے ذاتی حیثیت سے 2018 کے بعد کان کنوں کے اموات اور معذوروں کا ڈیٹا اکھٹا کیا ہے، جس کے مطابق 2018 میں 174 کان کنوں مختلف حادثات میں وفات پاگئے جبکہ2019 میں مرنے والوں کی تعداد 194 اور 2020 میں 204 ہیں-
سموا کے مطابق رواں سال کے تین مہینوں میں یہ تعداد پچاس 50 تک جاپہنچی ہیں-کوئلہ کان میں نہ صرف ان حادثات مین اموات واقع ہوتی ہے بلکہ بہت سارے لوگ مستقل معذور بھی ہوجاتے ہیں-سموا کے اعداد وشمار کے مطابق ایسے حادثات میں تقریبا 5500 لوگ معذور ہوچکے ہیں-اس کے علاوہ پندرہ ہزار 15000 بچے یتیم ہوئے جن کی عمریں اٹھارہ سال سے کم ہیں، جبکہ تقریبا سات ہزار عورتیں بیوہ ہو چکی ہیں-
یاد رہے کہ یہ اعداد وشمار سموا کے عہدیدار عابد یار نے اپنی ذاتی حیثیت میں جمع کیا ہے اور مقامی لوگوں کے مطابق یہ تعداد اس سے بھی ذیادہ ہوسکتی ہیں-
‘کوئلہ کان مین کام کرنے والے مزدور ابھی تک متعلقہ محکمے کے ساتھ رجسٹر نہیں’
خیبر پختونخواہ کے وزیر محنت شوکت یوسفزئی نے کوئلہ مزدوروں کے رجسٹریشن کا وعدہ کیا تھا اور اس کےلئے انہوں نے آن لائن رجسٹریشن کا اغاز کیا ہے لیکن رجسٹریشن میں مزدوروں کو کافی مشکلات کا سامنا ہے-
کول مائن ورکز ویلفئیر ایسوسی ایشن ( سموا) کے ترجمان سرفراز خان نے ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ طریقہ کار مشکل ہے اور مزدوروں کا انٹرنیٹ تک رسائی ہے اور نہ ان میں اس حوالے سے آگاہی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ رجسٹریشن کے عمل کو آسان بنایا جائے اور عملے کو موقع پر بھیج کر مزدورں کا رجسٹریشن کرایا جائے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان لائن رجسٹریشن میں عام لوگوں کا اپنے اپکو بطور کوئلہ مزدور رجسٹر کرنے کے بھی امکانات ہیں-
سرفراز خان کے مطابق ان لائن رجسٹریشن کے بعد اس فارم کو متعلقہ ٹھیکدار یا مائن جمعدار سے دستخط کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے-
انہوں نے مطالبہ کیا کہ متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر کو رجسٹریشن کی ذمہ داری دی جائے تاکہ اس عمل کو آسانی کے ساتھ مکمل کیا جاسکے-