خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

چارسدہ میں زرعی زمینوں پر آبادکاریوں سے مستقبل کے نقصانات، ذمہ دار کون؟

رفاقت اللہ رزڑوال

"ضلع بھر میں زرعی زمینیں پلاٹنگ میں تبدیل کئے جاتے ہیں، یہ میرے سامنے 50 ایکڑ کی زمین ہے، پہلے سبزیاں، پھل اور دیگر فصلیں اُگائی جاتی تھی مگر اب اس پر آبادیاں ہو رہی ہے جس سے نہ صرف خوراک میں کمی ہورہی ہے بلکہ کاشتکاری سے جڑے کئی مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں”۔
یہ بات ضلع چارسدہ کے علاقہ سرڈھیری سے تعلق رکھنے والے کاشتکاری سے جڑے ستر سالہ حاجی عبدالاکبر خان نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کسانوں کیلئے کوئی زرعی پالیسی یا انہیں کاشتکاری سے متعلق شعور دینے کیلئے کوئی پلان موجود نہیں ہے۔
عبدالاکبر کہتے ہیں کہ زرعی پالیسی ایسی ہونی چاہئے کہ محکمہ زراعت کاشتکاروں کو واضح کریں کہ اُنکی فصل کی کُل لاگت کتنی ہوگی اور وہ کتنا منافع کمائے گا مگر بدقسمتی سے یہاں پر محکمہ زراعت اس حوالے سے کسانوں کو نہ مشورے دیتے ہیں اور نہ انہیں فصل کے منافع کے بارے میں بتاتے ہیں جسکی وجہ سے زمیندار مجبور ہیں کہ وہ اپنے خرچے پورے کرنے کیلئے زرعی زمینیں فروخت کریں۔
وہ کہتے ہیں کہ منافع نہ ملنے کی وجہ سے ضلع چارسدہ میں زمینداروں نے کئی سو ایکڑ زمینیں فروخت کئے اور اُس سے حاصل کی گئی رقم پر بڑے بڑے شہروں میں کاروبار شروع کیے یا کرائے کیلئے بنگلے خرید لئے جس سے اُنکو ماہانہ لاکھوں روپے رقم ملتی ہے جو کاشتکاری کی آمدن سے زیادہ بہتر ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے سرڈھیری گاؤں میں سو جیرب (50 ایکڑ) زرعی زمین پلاٹنگ کیلئے فروخت کی گئی ہے جس پر گنا، گندم، جوار اور تمباکو کی فصل کاشت کی جاتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ سو جیرب سے سالانہ 2000 من گڑ، 24000 من چینی یا 1500 من گندم حاصل کی جاسکتی ہے۔

زرعی زمینوں کی خریدو فروخت پر انتظامیہ کیا کہتی ہے؟

تحصیل میونسپل آفیسر امین گل کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا  لوکل گورنمنٹ کے رولز 2005 کے مطابق صرف اُن زمینوں پر پلاٹنگ کی جائے گی جو زرعی کاشت کے قابل نہ ہو، انہوں نے کہا کہ رولز کے مطابق تحصیل میونسپل ایڈمینسٹریشن صرف اُن زمینوں پر پلاٹنگ کی اجازت دے سکتا ہے جو مجموعی طور پر 160 کنال (20 ایکڑ) ہو جن میں پراپرٹی ڈیلرز کو ٹی ایم اے سے این او سی لینا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ این او سی میں ماحول کے تحفظ اور زراعت کو متاثر ہونے سے بچانے کیلئے پراپرٹی ڈیلرز کو ہدایات دی جاتی ہے کہ مجموعی زمین کی 2 فیصد رقبے پر باغات، 50 فٹ روڈز، مسجد اور مارکیٹ کی تعمیرات کو یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ضلع بھر میں پراپرٹی ڈیلرز نے بغیر کسی این او سی کے حصول کے سینکڑوں ایکڑ زرعی زمینیں پلاٹنگ کیلئے فروخت کررہے ہیں، جن کو اجازت نامہ کی حصول کیلئے تین دفعہ نوٹسز جاری کئے جاچکے تھے مگر جواب نہ دینے پر 32 افراد کے خلاف مقدمے درج کئے اور ضلع بھر میں 5 دفاتر کے ساتھ ایک درجن کے قریب پراپرٹیز کو سیل کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 13 مارچ کو صوبائی حکومت نے زرعی زمینوں کی تحفظ کیلئے ایک اجلاس کا انعقاد کیا تھا جس میں صوبہ بھر کے انتظامیہ کو واضح احکامات دئے گئے ہیں کہ قانون کے مطابق پراپرٹی ڈیلرز کو پابند بنائے کہ زرعی زمینوں کی خریدو فروخت سے اجتناب کریں۔

رولز کے نفاذ پر ضلعی انتظامیہ کے خلاف پراپرٹی ڈیلرز کے احتجاجی مظاہرے

پراپرٹی ڈیلرز ایسوسی ایشن نے رولز 2005 کے نفاذ کو انکی رزق چھیننے کے متراد قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پراپرٹی کے کاروبار سے ضلع بھر کے 500 خاندان وابستہ ہیں۔
ایسوسی ایشن کے جنرل سکرٹری جابر جلال نے کہا کہ رولز 2005 کی بنیاد پر ٹی ایم اے نے بغیر کسی انکوائری انکے 32 ساتھیوں جن میں خواتین اور فوت شدہ افراد شامل ہیں کے خلاف دفعہ 419 اور 420 کے تحت مقدمات درج کئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے انہیں انتقالات، رجسٹریشن اور سٹامپ پیپرز کی خریداری پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔


انہوں نے کہا کہ ایسے مقدمات کے اندراج سے نہ صرف اُنکی کاروبار کو شدید دھچکا لگا ہے بلکہ انکی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔
جابر جلال نے کہا کہ موجودہ قانون میں سُقم ہے،پہلے یہ کہ قانون میں زرعی اور بنجر زمینوں کی تعریف نہیں کی گئی ہے، دوسری یہ کہ اگر کسی زمیندار کی 160 کنال سے کم زمین ہو اور وہ کسی ضرورت کیلئے وہ فروخت کرتے ہو تو اُس کیلئے کیا حکمت عملی ہوگی؟ انہوں نے صوبائی حکومت سے قانون پر ازسرنو جائزہ لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

زرعی زمینوں کی آبادی سے ماحول پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیات و سائنس کے چیئرمین پرفیسر ڈاکٹر نفیس کا کہنا ہے کہ آج کل نہ صرف جنگلات کی بے دریغ کٹائی جاری ہے بلکہ زرعی زمینوں پر آبادکاریاں بھی زور و شور سے شروع ہے جس کی وجہ سے مستقبل میں قدرتی آفات سے بچنا مشکل ہوجائے گا۔
"خیبرپختونخوا میں ہم نے تقریباً تین ہاوسنگ سکیموں کا تحقیقاتی سروے کیا تھا، ان سرویز میں واضح ہوگیا کہ قوانین کو مدنظر رکھے بغیر آبادکاریاں قائم ہوئی ہیں اور اب وہاں پر آلودہ پانی، نکاس آب، سالڈ ویسٹ سسٹم اور زمینی کٹاؤ جیسے مسائل پیدا ہوئے ہیں”۔
ڈاکٹر نفیس نے کہا کہ ان سرویز میں ہم نے حکومت کو ماحولیات اور خوراک کی کمی سے بچنے کیلئے تجاویز بھی دئے ہیں مگر آج تک کسی بھی حکومتی ادارے نے ان تجاویز کو مدنظر نہیں رکھا ہے۔
"بدقسمتی سے آج کل شمالی علاقہ جات میں بھی درختوں کی کٹائی شروع ہے اگر انکی جگہ ہم جنوبی اضلاع میں بنجر زمینوں پر ہاوسنگ سکیمیں بنائیں تو نہ صرف جنگلات اور زرعی زمین محفوظ بن جائیں گے بلکہ بنجر زمینوں سے بھی فائدہ اُٹھایا جائے گا”۔
انہوں نے کہا کہ ایک صحت مند ماحول کیلئے ضروری ہے کہ علاقے کے 20 سے 25 فیصد رقبے پر جنگلات، پودے یا فصل اُگائی جائے۔ انکے مطابق اس وقت پورے ملک میں 5 فیصد رقبہ جنگلات پر محیط ہے جبکہ دیگر صوبوں کی نسبت خیبرپختونخوا کے صورتحال بہتر ہے جہاں پر 12 سے 15 فیصد رقبے پر جنگلات پائے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر نفیس کا کہنا ہے کہ کہ ہاوسنگ سکیم لانچ کرنے سے پہلے ہاوسنگ اتھارٹی ایکٹ 2005، انوائرنمینٹل پروٹیکشن ایکٹ 2014 خیبرپختونخوا اور انوائرنمینٹل ایمپیکٹ اسسٹنمنٹ ریگولیشن کو مدنظر رکھنے کے بغیر آباکاریاں جاری رہی تو مستقبل میں قدرتی آفات سے نمٹنا مشکل ہوجائے گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button