غیرت کے نام پر قتل: غیرت کو اسلام اور قانون پر ترجیح کیوں؟
سٹیزن جرنلسٹ دوست علی وزیر
پاکستان میں غیرت کے نام پر مرد اور عورت کو قتل کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ شروع سے چلتا آرہا ہے چاہے پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہو یا بعد کی بات ہو۔ بلخصوص خیبر پختوںخوا کے قبائلی علاقہ جات میں یہ جرم زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ قبائلی اضلاع میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کسی مرد اور عورت کو ایک ساتھ کھڑے ہوکر دیکھنے, یا بات کرتے ہوئے یا پھر یہاں تک کہ صرف خیالی شک کی بنیاد پر دونوں کو قتل کردیا جاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کا کوئی اسلامی اور قانونی جواز ہے ؟
پہلی بات یہ ہے کہ اس طرح کے قتل کو ہم بظاہر غیرت کا نام دیتے ہیں نہ کہ اسلام کا۔ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو اس طرح کی غیرت کے لیے اگر کوئی جواز پیش کیا جاتا ہے تو وہ اسلام ہے۔ یعنی اگر آپ کسی قاتل سے پوچھے کہ کیوں قتل کیا ؟ تو وہ جواب دیتا ہے کہ زنا کا جرم کیا تھا۔ جب آپ مزید پوچھے کہ پھر قتل کیوں کیا ؟ تو کہے گا کہ یہ غیر شرعی عمل ہے یعنی اسلام کے ساتھ منسوب کر دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں اس طرح کی غیرت کا تعلق اسلام سے نہیں جوڑا جا سکتا بلکہ اس میں ہماری زہنیت کے ساتھ ساتھ ہمارے رسم و رواج کی حوصلہ افزائی بھی شامل ہے۔
بات رہی اسلام کی اسلام میں زنا کے لیے حد کی سزاء مقرر ہے۔ اگر مرد و عورت غیر شادی شدہ ہیں تو پھر سو کوڑے مارنے کی سزا ہے اور اگر شادی شدہ ہے پھر رجم کی سزا ہے یعنی سنگسار کرنا۔ کہنے کو تو یہ بہت آسان ہے کہ اسلام میں بہت سخت سزائیں مقرر ہے لیکن ان کو ثابت کرنا آج کل کے دور میں تقریباً ناممکن ہے کیونکہ اسلام میں زنا کو ثابت کرنے کے لیے بہت سخت شرائط مقرر ہیں۔ مثال کے طور چار گواہ کا ہونا اور وہ بھی اس طرح کہ چاروں نے اپنی آنکھوں سے "دخول” ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہو۔ اور پھر ان گواہوں کے شرائط کہ ان کا بالغ اور عاقل ہونا سچا ہونا وغیرہ۔ اور اس طرح کی حالت میں آج کل کے دور کسی کو پانا تقریباً ناممکن ہے۔
ایک اس صورت میں اگر ہم یہ مان بھی لے کہ زنا کا گناہ سرزد ہوا ہے۔ بے شک زنا بہت بڑا گناہ ہے لیکن کوئی بھی بازار میں کھڑے ہوکر زنا نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی پر حد کی سزاء ثابت نہیں ہوئی ہے۔ حد نافز کرنے کی صرف ایک صورت ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ دونون یعنی مرد اور عورت یہ اقرار کرلیں کہ ہم سے زنا سرزد ہوا ہے۔ البتہ تعزیری سزاء ہو سکتی ہے۔ مختصر یہ کہ اسلام نے سخت سزائیں مقرر کر کے اس چیز کی حوصلہ شکنی ضرور کی ہے تاکہ یہ چیز عام نہ ہوجائے لیکن ساتھ میں ثابت کرنے کے لیے سخت شرئط بھی دی ہیں۔
اب اگر قانون کی بات کی جائے تو دنیا میں کو ئی ایسا قانون ہے نہ ہی ایسا مزہب ہے جس نے اس طرح کے قتل کی اجازت دی ہو۔ بلکہ کسی کو خود سزاء دینا بزات خود ایک جرم ہے کیونکہ سزاء دینے یا سنانے کا اختیار قاضی یعنی جج کے پاس ہوتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس طرح کے جرم کو ناقابل معافی قرار دیا ہے جس کو ہم انگریزی میں "Non-compoundable offence” کہتے ہیں یعنی اس میں راضی نامہ نہیں ہو سکتا۔
مختصر پہ کہ غیرت کے نام پر قتل کرکے ہم نے ہمیشہ غیرت کو اسلام اور قانون پر ترجیح دیکر اپنی محدود زہنیت کے ساتھ اپنے غلط رسم و رواج کی پیروی کی ہے نہ کہ اسلام کی۔ کیونکہ اس سنگین جرم میں زیادہ تر معاشرے کی حوصلہ افزائی بھی شامل ہوتی ہیں۔ اسلام ہمیں صبر اور برداشت کی تلقین کرتا ہے اور ہم مخالف سمت میں جا رہے ہیں۔