چارسدہ کی فرسودہ روایات سے اس مقام تک پہنچنا فرخندہ کے لئے آسان نہ تھا
عثمان خان
قارئین کرام! آج ہم پشتو ادب کے ایک درخشاں ستارے سے آپ کی تفصیلی ملاقات کرائیں گے جنہوں نے پشتو ادب کیلئے گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ ستارہ ایک خاتون ہیں، بقول اقبال جنہوں نے اپنے وجود سے پشتو ادب کے افق کو بلاشبہ نئے نئے رنگ بخشے ہیں اور اس کے حسن میں اضافے کا ہی باعث بنی ہیں۔
جی ہاں! آج ہم بات کریں گے ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والی پروفیسر فرخندہ لیاقت کی جو کہ آج کل پشاور یونیورسٹی پشتو اکیڈمی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے منصب پر اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
انتہائی دھیمے لب و لہجے میں بات کرنے والی پروفیسر فرخندہ لیاقت اٹھارہ سال سے پشاور یونیورسٹی میں لیکچرار کے لیول سے لے کر ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیتی آ رہی ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں انہوں نے بتایا، ”ماسٹر ڈگری سے لے کر آج تک میں جس مقام تک پہنچی ہوں ان تین عشروں میں، میں نے بہت پاپڑ بیلے ہیں جس کا زبانی قصہ بیان کرنا تو کافی آسان ہو گا لیکن یہ سفر طے کرنے میں نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا ہے، لیکن یہ سب کچھ ممکن کیسے ہوا،اس میں میرے سسرال اور خصوصی طور پر شوہر کا بہت ہاتھ ہے جنہوں نے ہر کٹھن وقت میں میرا ساتھ دیا اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔
پروفیسر فرخندہ لیاقت چار کتابوں کی مصنفہ ہیں جن میں شاعری کی کتاب ”سہ حقیقت سہ د خوبونو دنیا” دوسری ”د پختو منظومی قیصی” تیسری عبدالاکبر خان اکبر کی زندگی اور ادبی خدمات” جبکہ ”زما د جوند قیصہ زما پہ ژبہ” پرفیسر فرخندہ کی چوتھی کتاب ہے۔
پروفیسر فرخندہ لیاقت بتاتی ہیں ، ”پشاور یونیورسٹی شعبہ پشتو سے پشتو اکیڈمی آنے تک شاعری کی جانب میرا رجحان اتنا نہیں تھا لیکن جب میں پشتو اکیڈمی آئی تو مجھے احساس ہوا کہ اب شاعری اور ریسرچ کے کام میں کچھ کرنا ہو گا، شعبہ پشتو کے سابق چیئرمین جبار صاحب مجھے بتاتے کہ فرخندہ تم شاعری کر سکتی ہو لیکن میں جواباً کہتی کہ سر یہ میرے بس کی بات نہیں بس انہوں ایک کاپی ہاتھ میں تھما دی اور کہا کہ بس جب کبھی ذہن میں شعر آئے تو اس میں نوٹ کیا کرو اور بس یہیں سے شاعری کا سفر شروع ہوا۔
ڈاکٹر فرخندہ لیاقت کے بقول کے ڈاکٹر اعظم اعظم اکثر ان کے آفس آتے اور پوچھتے تھے کہ فرخندہ تو نے کچھ لکھا ہے کہ نہیں تو میں بہت شرماتی تھی کہ یہ لوگ شاعری کس طرح کرتے ہیں اور پھر ایک بھرے مجمعے میں لوگوں کے سامنے شاعری کرنا میرے لئے ناممکن تھا، ”لیکن پھر ہوا کچھ یوں کہ ڈاکٹر محمد اعظم اعظم نے بتایا اگر تمہاری کچھ شاعری ہو تو مجھے دے دو پشتو مجلے میں شائع کروا دیں گے تو میں نے بتایا کہ سر ایک غزل لکھی ہے لیکن پتہ نہیں کس طرح ہوگی، انہوں بتایا کہ جلدی سے دو، جب میں نے ان کے ساتھ شریک کی تو اعظم صاحب کافی خوش ہوئے اور کہا کہ اس غزل میں کوئی کمی نہیں ہے ہر معیار پر پورا اترتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی تعریف سے مجھے بہت حوصلہ ملا انھوں نے بتایا کے آپ میں کافی ٹیلنٹ موجود ہے اس پر توجہ مرکوز کرو۔
ڈاکٹر فرخندہ لیاقت بتاتی ہیں کہ انہوں نے اپنا پہلا شعری مجموعہ تقریباً چار مہینے میں مکمل کیا تھا اور پرنٹنگ کیلئے تیار تھا، ایسے میں ایک دن پروفیسر احمد علی عاجز صاحب میرے آفس میں آئے اور کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ شاعری کی کتاب چھاپ رہی ہیں؟ میں نے بتایا جی! میں نے کہا سر آپ ایک مرتبہ دیکھ لیں، انھوں نے کہا کہ فرخندہ کتاب چھاپنا بہت مشکل کام ہوتا ہے، تقریباً چالیس سال ہوتے ہیں میں نے ایک کتاب ترتیب دی ہے لیکن جب بھی اٹھاتا ہوں تو سوچتا ہوں اس میں کچھ کمی ہو گی اور پھر اس میں کچھ نہ کچھ کر دیتا ہوں، تم بھی ایک مرتبہ اپنی کتاب کا پھر سے جائزہ لو کچھ کمی ہو گی۔
میں نے بتایا کہ سر اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں اس کتاب کو شائع کروں گی بس میرے دل نے آواز دی ہے کہ کر یہ کام، احمد علی عاجز صاحب بہت ہنسے اور کہا کہ آپ تو چھپی شاعرہ نکلیں، پھر ہوا یہ کہ چھ ماہ بعد میری شاعری کی کتاب شائع ہوئی، جس کا نام ہے ”سہ حقیت سہ د خوبونو دنیا” جس میں زیادہ تر نظمیں ہیں اور دوست احباب بھی کہتے ہیں کہ تو نظم بہت اچھی لکھتی ہے اور میرا رجحان بھی نظم کی جانب ہے۔
ڈاکتر فرخندہ بتاتی ہیں کہ اس کتاب کی زیادہ تر شاعری میری زندگی کے حقیقی واقعات پر مبنی ہے، انھوں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ خوابوں کی جو شاعری ہے وہ بہت کم جوانی کے لمحات کی ہے۔
پروفیسر فرخندہ لیاقت کی دوسری بڑی کاوش جو ہے وہ پشتو زبان کے زندہ لیجنڈز کی بائیوگرافیز (خودنوشت سوانح عمری) ہیں جو ان شخصیات نے خود قلم بند کی ہیں اور ڈاکٹر صاحبہ نے اس کو کتاب کا شکل دی، اس کتاب پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا کیونکہ اس کتاب کا خاصہ یہ ہے کہ ان شخصیات نے یہ سب کچھ خود لکھا ہے اور اس کتاب کا نام ”زما د ژوند قیصہ زما پہ ژبہ” (میری زندگی کی کہانی میری زبانی)۔
ڈاکٹر فرخندہ لیاقت بتاتی ہیں کہ پشاور یونیورسٹی پشتو اکیڈمی نے بہت اچھی کاوشیں شروع کی ہیں، اگر دیکھا جائے تو پشتو میں ایک عرصہ دارز سے چند موضوعات پر پی ایچ ڈیز ہو رہی تھیں جیسا کہ رحمان بابا، خوشحال بابا وغیرہ، اپنی جگہ یہ موضوعات بھی بہت اہم اور اب بھی ان میں بہت کام کی گنجائش ہے لیکن ہمیں موجودہ زمانے کے تقاضوں کے سنگ آگے جانا ہے، جس طرح دوسرے علوم میں جدت آ رہی ہے پشتو کو بھی اس کی ضرورت ہے۔
ہماری کوشش ہے آج کل پشتون جن چیلنجز اور جن مشکلات سے دوچار ہیں ہم ان پر ریسرچ کریں اور ان کا حل نکالنے کی کوشش کریں، ہماری سرپرستی میں اب ایسے موضوعات پر کام ہوا ہے جیسے کہ گلوبلائزیشن اور پشتو زبان، پشتون کلچر پر دہشت کے خلاف جنگ کے اثرات، نائن الیون کے بعد پشتو ادب پر اثرات، اب ہماری یہ کاوش ہے کے موجودہ حالات کے تقاضوں کے مطابق کام کریں اور طالبعلموں کو بھی اس طرح کے موضوعات کے بارے میں گائیڈ کریں۔
ڈاکٹر فرخندہ کے بقول اگر انگلش اور دوسری زبانیں معاش کی زبانیں بن چکی ہیں تو ان کی پشت پر حکومت کی سرپرستی ہے، ہمارے پشتون سیاسی لیڈروں اور حکومتی نمائندوں کو چاہیے کی اس ضمن میں کام کریں، ”پشتو زبان کسی زبان سے کم نہیں۔”
ڈاکٹر صاحبہ بتاتی ہیں کہ پشتون معاشرے میں خواتین کیلئے بہت مشکلات ہیں، ”سب سے پہلے ایک خاتون کیلئے گھر سے باہر نکلنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے، اس کے بعد جب آپ کی شادی ہو جائے اور شوہر کا ساتھ نہ ہو تو پھر ایک اکیلی خاتون آگے نہیں بڑھ سکتی، میں نے بیچلر کے بعد پی ایچ ڈی تک ساری تعلیم شادی کے بعد حاصل کی ہے۔”
اگر میں اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بتاؤں تو گھر پر مجھے والد نے بہت سپورٹ کیا ہے کیونکہ آپ بہت تعلیم دوست تھے، جب ہم بہن بھائی چھوٹے تھے اور سکول کیلئے روتے تھے تو ابو والدہ کو کہتے کہ کیوں رلاتی ہو بچوں کو، پڑھنے دو انہیں، والد نے ٹھان لی تھی کہ میرے بچے اعلی تعلیم حاصل کریں گے اور وقت نے ثابت کر دیا، آج سارا خاندان ہم پر ناز کرتا ہے۔
پروفیسر فرخندہ بتاتی ہیں کہ ایک سرکاری ملازم کیلئے گھر بار سنبھالنا بھی ایک مشکل کام ہوتا ہے لیکن میں نے اپنے بچوں کی پرورش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ”اللہ کے کرم سے موجودہ وقت میں میری دو بیٹیاں ڈاکٹر اور تیسری ڈاکٹر بننے جا رہی ہے۔”
ڈاکٹر صاحبہ نے آخر میں بتایا ”جب ایک خاتون صدق دل سے کام کرے اور اس کا دامن بھی صاف ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا راستہ بند نہیں کر سکتی جیسا کہ پشتو کی ایک کہاوت ہے ”راست اوسہ پہ لویا لار کی ملاست اوسہ (پاک رہو بے باک رہو) اور یا ”سپی بہ غاپی او کاروان بہ وڑاندی روان وی” (کتے بھونکتے رہتے ہیں قافلے چلتے رہتے ہیں)۔