خیبر پختونخوا حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے پر کیوں خاموش ہے؟
رفاقت اللہ رزڑوال
سول سائٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں مزید تاخیر نہ کرے کیونکہ یہ نہ صرف پاکستان کی آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ تعمیر و ترقی کا کام بھی ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔
اس حوالے سے جمعہ کے روز خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں سابقہ کونسلرز کی غیرسرکاری تنظٰیم ‘ہم نگران گروپ’ کے ممبران نے ایک اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس میں سیاسی پارٹیوں کے مرد خواتین، مزدوروں، اقلیتی برادری، سوشل ویلفئر اور الیکشن کمیشن کے افسران نے شرکت کی۔
اس موقع پر سابق ضلعی ممبر قاسم علی خان نے ٹی این این سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد اور اختیارات کو نچھلی سطح تک منتقل کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں جس کا براہ راست نقصان عوام کو مقامی سطح پر ترقیاتی کاموں اور اپنی دہلیز پر سہولیات کی عدم دستیابی کی صورت میں اُٹھانا پڑتا ہے۔
انہوں نے آئین پاکستان کا حوالہ دے کر کہا کہ پاکستان کی آئین کے آرٹیکل 140 میں واضح لکھا گیا کہ صوبائی حکومتوں کا فرض ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے میعاد ختم ہونے کے 120 دن بعد نئے انتخابات کرے ‘مگر ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد بھی انتخابات نہ کرواسکے”۔
انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تاخیری حربے اسلئے اپنائے جاتے ہیں کیونکہ اُنکی پالیساں ناکام ہوچکی ہے اور عوام کو وہ سہولیات نہ دے سکیں جو اُن کا بنیادی حق ہے اسلئے حکومتی نمائندگان عوام کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
اجلاس میں سابقہ ضلعی و کونسلر خواتین ممبران کی بھی کثیر تعداد میں شرکت نظر آئی اور لوکل گورنمنٹ عدم انتخابات سے خواتین کو درپیش مسائل پر حکومتی اور سرکاری افسران کو آگاہ کیا۔
ضلعی اسمبلی کی سابقہ خاتون ممبر رضیہ سلطانہ کا کہنا ہے کہ لوکل گورنمنٹ 2013 کی قانون کے مطابق صوبائی حکومت کی سالانہ بجٹ میں دیہی ترقی کیلئے 30 فیصد کا بجٹ مختص ہے جس کی کُل رقم 160 ارب روپے بنتی ہے اور اس فنڈ کو حکومت نے اپنے پاس رکھا ہے اور اسی کیذریعے بلدیاتی افسران کے ذریعے اپنے کام چلا رہے جو آئین پاکستان کے خلاف ہے۔
رضیہ سلطانہ کہ کہنا ہے کہ ” جب میں ضلعی ممبر تھی تو میں نے اپنے فنڈ سے اپنے علاقے کے بیوہ اور بے بس خواتین کیلئے سلائی مشینیں خریدی تھی جسکے ذریعے وہ سلائی کا کام کرتی تھی اور اپنی فیملی کو سپورٹ کرتی ہیں، وجہ یہ تھی کہ ہمیں اندازاہ ہے کہ عوام کن مسائل کا سامنا کر رہے ہیں مگر اب چونکہ معاملہ سرکاری افسران پر چھوڑ دیا گیا ہے نہ تو انہیں عوام کے مسائل کا اندازہ ہے اور نہ اُن تک رسائی ہوسکتی ہے”۔
انہوں نے عدالت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ علاقائی و دیہی ترقی کیلئے مقامی حکومتوں کا انعقاد ضروری ہے تاکہ عوام کو بنیادی سہولیات انکے دہلیز پر ملیں اور صوبائی و قومی اسمبلی کے ارکان کو قانون سازی تک محدود رکھنے کے احکامات جاری کرے بصورت دیگر یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کو جلد از جلد کرانے کیلئے مذہبی پارٹی جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق خان نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ بھی دائر کر چکا ہے۔ انہوں نے ٹیلی فون کے ذریعے ٹی این این کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے کرونا وائرس کی پھیلاو کو کنٹرول کرنے کے بہانے سے ‘ایپیڈیمک کنٹرول ایکٹ’ کے نام سے قانون منظور کی ہے جسکے تحت دو سال تک انتخابات نہیں کروائے جائیں گے۔
مشتاق خان نے بتایا کہ "صوبائی حکومت ایسی کوئی قانون لاگو نہیں کرسکتی جو آئین پاکستان کی بنیادی شق کے خلاف ہو اور اسی کو بنیاد بنا کے ہم نے عدالت سے مذکورہ قانون کے خاتمے کیلئے درخواست جمع کی ہے اور التجا کی ہے کہ ایسے قوانین لاگو کرنا بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہیں”۔
بلدیاتی انتخابات کی انعقاد پر حکومت کا موقف
امسال 28 جنوری کو خیبرپختونخوا کی کابینہ اجلاس میں 15 ستمبر 2021 کو بلدیاتی انتخابات کی انعقاد کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کابینہ اجلاس کے بعد سابقہ وزیرقانون سلطان محمد خان نے میڈیا کو بتایا تھا کہ حکومت الیکشن کمیشن کی تعاون سے مرحلہ وار طور پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرینگے اور اختیارات کو نچھلے سطح تک منتقل کرینگے۔
اُن کا کہنا تھا کہ بلدیاتی نظام کو فروغ دینا پاکستان تحریک انصاف کی منشور کا حصہ ہے کیونکہ اسی کے ذریعے عوام کے بنیادی حقوق مل سکتے ہیں۔
حکومت نے تاخیری خربوں کے حوالے سے موقف اپنایا تھا کہ انتخابات پہلے نئے ضم شدہ اضلاع میں حلقہ بندیاں کروانی تھی اور پھر کرونا وبا کی پھیلاو کے خطرے سے تعطل کے شکار ہوئے۔
بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے آئین پاکستان کیا کہتا ہے؟
قانونی ماہرین کے مطابق بلدیاتی انتخابات کے قانون 2017 کے مطابق لوکل گورنمنٹ کی میعاد ختم کے 120 دن کے اندر اندر انتخابات کروانا لازمی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ اتنخابات کی میعاد سال 2019 کے اگست میں مکمل ہوچکا ہے اور قانون کے مطابق بدلیاتی انتخابات دسمبر میں ہونے چاہئے تھے۔