خیبر پختونخوا

کم عمر لڑکی سے شادی پر ایم این اے مولانا صلاح الدین ایوبی سے استعفیٰ کا مطالبہ

سول سوسائٹی نے خیبر پختونخوا میں 14 سالہ لڑکی سے شادی کرنے پر ایم این اے مولانا صلاح الدین ایوبی سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔
پختونخوا سول سوسائٹی نیٹ ورک (پی سی ایس این) کے ارکان نے خیبر پختونخوا کے شہر چترال میں 14 سالہ لڑکی سے ایم این اے مولانا صلاح الدین ایوبی کی غیر قانونی شادی پر مایوسی کا اظہار کیا۔ ذرائع کے مطابق لڑکی گورنمنٹ گرلز ہائی سکول جوگھواور کی طالبہ تھی جہاں اس کی تاریخ پیدائش 28 اکتوبر 2006 لکھی گئی تھی جس سے ظاہر ہوا کہ اس نے شادی کی عمر حاصل نہیں کی تھی۔
لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر 16سال ہے سوائے سندھ کے جہاں یہ 18 ہے، پاکستان دنیا میں بچوں کی شادیوں کے اعداد وشمار میں چھٹے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں بچوں کی شادی کے پھیلاؤ کی شرح خطرناک حد تک زیادہ رہتی ہے، پاکستان میں 21 فی صد سے زائد لڑکیوں کی 18 سال سے کم عمر اور 3 فی صد کی 15 سال سےکم عمر میں ہوتی ہے۔ صوبوں میں، سندھ میں پھیلاؤ (33 ٪)، اس کے بعد خیبر پختونخوا (29 ٪)، بلوچستان (22 ٪)، اور پنجاب میں 20 فیصد ہے۔

تیمور کمال کوآرڈینیٹر پختونخوا سول سوسائٹی نیٹ ورک (پی سی ایس این) نے کہا کہ "ایم این اے صلاح الدین ایوبی کو فوری طور پر مستعفی ہونا چاہئے کیونکہ انہوں نے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 کی خلاف ورزی کی ہے جس کے مطابق 16 سال سے کم عمر کی کوئی لڑکی خیبر پختونخوا میں یا پاکستان میں دوسری جگہوں پر قانونی طور پر شادی نہیں کرسکتی”۔
بچوں کے حقوق کی تحریک (سی آر ایم) کی ثنا احمد کوارڈینیٹر نے کہا کہ "شادی کے نام پر لڑکیوں کو مویشیوں کی طرح خریدا جارہا ہے جنہیں عرصہ دراز سے چترال سے باہر لے جایا جارہا ہے۔ یہ انسانی اسمگلنگ کی ایک جدید شکل ہے۔ لڑکیوں کو منظم گروہوں کے زریعے چترال سے باہر خریدا اور منتقل کیا جاتا ہے. اکثر اوقات دولت مند لوگ دوسری بیوی کی تلاش میں چترال آتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد کوئی بھی ان غریب لڑکیوں کے بارے میں پرواہ نہیں کرتا. عمران ٹکر بچوں کے حقوق کے کارکن نے کہا "ہمیں بچوں کی شادیوں کو حکومتی سطح پر طویل مدتی حکمت عملی، قلیل مدتی، اور درمیانی مدتی حکمت عملی کے ذریعےختم کرنے کے لئے بہت واضح حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی روایتی رویوں میں جڑے ہوئے مسئلے پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اسے ایک، دو، یا پانچ سال میں حل نہیں کرسکتے ہیں ہمیں پالیسیوں کی ضرورت ہے ہمیں قانون سازی اور بچوں کے تحفظ کی ایک جامع اور مستحکم نظام کی ضرورت ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button