"وہ دیکھو تمہاری دادی جا رہی ہے” بوڑھے شخص کا پوتے کے سامنے ٹھرک پن
خالدہ نیاز
‘میں اپنی بہن کے ساتھ معمول کے مطابق پیدل سکول جا رہی تھی جب ایک ادھیڑ عمر کے شخص کے قریب سے گزرے تو اس نے اپنے پوتے سے کہا کہ دیکھو تمہاری دادی جا رہی ہے جسے سن کرمجھے شدید قسم کا غصہ آ گیا۔’
پشاور سے تعلق رکھنے والی ریحانہ (فرضی نام) ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی ہیں، وہ روزانہ سکول آتی جاتی ہیں جہاں ان کو اس طرح کے جملے سننا پڑتے ہیں۔ ریحانہ کا کہنا ہے کہ جب اس آدمی کی یہ بات سنی تو ان کو اس سے شدید دھچکا لگا کہ اگر ایک بوڑھا شخص ایسا نازیبا الفاظ استعمال کر سکتا ہے تو نوجوان لڑکے کیا کچھ نہیں کر سکتے۔
ریحانہ نے کہا کہ ان کے ساتھ اکثر ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں لیکن وہ چاہ کر بھی نہ تو ان کو جواب دے سکتی ہیں اور نہ ہی گھر میں اس حوالے سے شکایت کر سکتی ہیں کیونکہ گھر کے مردوں کو پتہ چلنے سے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
گھر میں ہراسانی کے حوالے سے کسی کو نہیں بتا سکتے
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا جب وہ کالج جاتی تھی تو ایک لڑکا روزانہ ان کا پیچھا کرتا تھا لیکن وہ اس حوالے سے بھی گھر میں نہ بتا سکیں’ میں جب کالج جاتی اور پھر واپسی پر گھر آتی تھی تو وہ لڑکا روزانہ کھڑا ہوتا تھا اور انتظار میں ہوتا تھا کہ کب میں نکلوں اور وہ میرے پیچھے چلے۔’
پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 509 کے مطابق اگر کوئی شخص کسی بھی خاتون کی الفاظ سے، یا اپنے رویے سے بے توقیری کرتا ہے تو اسے تین سال قید کی سزا یا جرمانہ یا پھر دونوں ہو سکتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات نہ صرف ریحانہ کے ساتھ پیش آتے ہیں بلکہ ہردوسری یا تیسری خاتون کو اس طرح کے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پشاور کے ایک این جی او میں کام کرنے والی سائرہ مفتی کہتی ہیں کہ خواتین کو نہ صرف دفتر، بازاروں اور ٹرانسپورٹ میں مشکلات پیش آتی ہے بلکہ راستے میں بھی انکو کئی طرح کی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سب سے زیادہ تو انکو اس وقت پریشانی ہوتی ہے جب کوئی گاڑی نہیں ملتی تو وہ سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پرکھڑی ہوجاتی ہے لیکن وہاں پربھی وہ محفوظ نہیں ہوتی کیونکہ ہر دوسری تیسری گاڑی سامنے رکتی ہے اور اس میں بیٹھا شخص لفٹ دینے کی کوشش کرتا ہے جس سے بعض اوقات لوگ بھی غلط اندازہ لگا لیتے ہیں کہ لڑکی گاڑی والے سے بات کر رہی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔
ٹرانسپورٹ میں بھی لڑکیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے
سائرہ مفتی کہتی ہیں کہ راستے کے علاوہ ٹرانسپورٹ میں بھی لڑکیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے’ رکشے میں بیٹھ جاو تو وہ الگ عجیب نظروں سے دیکھتا ہے، اوپر سے اتنے شیشے لگائے ہوتے ہیں کہ جسم کا ہر ایک حصہ ان کو نظر آ رہا ہوتا ہے، بی آر ٹی میں بھی مرد حضرات خواتین کے سائیڈ پہ کھڑے ہوتے ہیں اب ان کو کون سمجھائے کہ آپ کا اپنا کیبن ہے یہ خواتین کے لیے مختص ہے لیکن نہیں خواتین کی سائیڈ پہ کھڑے ہو جاتے ہیں جو بہت برا لگتا ہے’
یہ بھی پڑھیں: مرد نے جب تنگ کرنا ہوتا ہے تو عبایا میں بھی کرتا ہے
سائرہ نے بتایا کہ رکشے والے کے ساتھ جب خواتین یا لڑکی بیٹھتی ہے تو وہ رکشہ تیز کردیتا ہے تاکہ وہ لڑکی یا خاتون ان سے بات کرسکیں کیونکہ وہ تو ضرور کہیں گی بھائی رکشے کو اتنا تیز نہ چلائے’ ایک اور بات جو میں نے نوٹ کی ہے وہ یہ ہے کہ علاقے میں ایک دو رکشے والے ایسے ہوتے ہیں جو بار بار دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ان کا بھی یہی روٹ ہوتا ہے اور رکشے والوں کا بھی تو وہ ڈرائیور پھر بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بات کو بڑھاتے ہیں کہ آپ کیا کرتی ہے کہاں رہتی ہے، میں روزانہ لے جایا کروں گا وغیرہ’
ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ بعض مرد اور لڑکے باقاعدہ جملوں سے خواتین کو ہراساں کرتے ہیں اور اگر کوئی خاتون آگے سے جواب دے تو وہ بدتمیزی پر اترآتے ہیں اور الٹا خاتون کو بے عزت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
راستے میں خواتین کو ہراساں کرنا قابل سزا جرم ہے
صوبائی محتسب برائے انسداد ہراسانی رخشندہ ناز کا کہنا ہے کہ اگر کوئی مرد کسی خاتون کا پیچھا کریں اور وہ پکڑا جائے تو پاکستان پینل کوڈ کے تحت اس کے خلاف ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے پچھلے سال اس حوالے سے ایک مہم بھی چلائی جس کے تحت پشاور میں جگہ جگہ بینرز لگائے جس پہ لکھا گیا تھا کہ راستے میں خواتین کو تنگ کرنا، ان کا پیچھا کرنا یا انکے لیے نازیبا الفاظ کا استعمال کرنا قابل سزا جرم ہے۔
رخشندہ ناز نے کہا کہ انہوں نے بی آرٹی سٹیشنز پربھی مہم چلائی ہے اور بینرز بھی لگائے گئے ہیں اس کے علاوہ پشاور میں جو تین بڑے بس سٹیشنز ہیں وہاں پر نالج سینٹرز بنارہے ہیں تاکہ خواتین وہی پرایک فارم بھر کر کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے حوالے سے بتاسکیں۔
سائرہ مفتی کا کہنا ہے کہ یہی مرد اپنے گھر کی خواتین کی تو بہت عزت کرتے ہیں لیکن باہر کسی کام سے نکلنے والی خواتین کو ہوس کی نظروں سے دیکھتے ہیں جس سے وہ ذہنی دباو کا شکار ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماں باپ کو چاہیئے کہ اپنے لڑکوں کی ایسی تربیت کریں کہ وہ خواتین کی عزت کرنا سکیھیں کیونکہ آجکل مرد تو چھوڑے سکول کے بچے بھی جملے کستے ہیں کیونکہ بچے بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں۔
سائرہ مفتی سمجھتی ہے کہ اچھی تربیت کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ٹریفک میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد بڑھائی جائے اور وہ بھی سڑکوں پر ڈیوٹی پر مامور کی جائے تاکہ اگر خدانخواستہ کسی لڑکی کے ساتھ کوئی برا واقعہ پیش آئے تو وہ جاکر اس خاتون اہلکار کو بتا سکیں۔
ٹریفک پولیس سڑکوں پرخواتین کے ساتھ مکمل تعاون کرتی ہے
دوسری جانب پشاور میں تعینات ٹریفک پولیس ڈی ایس پی شازیہ شاہد کا کہنا ہے کہ وہ سڑکوں پر خواتین کے ساتھ مکمل تعاون کرتی ہیں اور کوشش کررہی ہیں کہ خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات میں کمی لائی جائے۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں انکی خیبرپختونخوا کی صوبائی محتسب برائے انسداد ہراسانی رخشندہ ناز کے ساتھ بھی ملاقاتیں ہوچکی ہیں اور یہ وہ روزانہ کی بنیاد پرپشاور کے مختلف علاقوں میں پٹرولنگ کرتی ہیں اور مشکوک لوگوں پرنظر رکھتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ مختلف سکولز اور کالجز میں آگاہی سیشز بھی دیتی ہے۔ ڈی ایس پی کا کہنا ہے کہ وہ چھٹی کے وقت بھی سکولز، کالجز اور یونیورسٹی کے سامنے پٹرولنگ کرتی ہیں تاکہ طالبات کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
رخشندہ ناز کا کہنا ہے کہ شروع میں جب ان کا دفتر کھلا تو انکو کچھ شکایات ملی تھی کہ تعلیمی اداروں میں چھٹی کے وقت باہر لڑکے بلاوجہ کھڑے ہوتے ہیں اور لڑکیوں کو تنگ کرتے ہیں جس کے بعد انہوں نے اس سلسلے میں پولیس سے بات کی کہ چھٹی کے وقت تعلیمی اداروں کے سامنے پٹرولنگ بڑھائی جائے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔
صوبائی محتسب کے مطابق انکے پاس پبلک پلیس ہراسمنٹ کے تین کیسز آئے ہیں لیکن وہ بھی ٹیلی فون کے ذریعے آئے تھے جس کے بعد انہوں نے پولیس کو اس حوالے سے کہا تھا کہ تعلیمی اداروں میں چھٹی کے وقت پٹرولنگ بڑھادے اور نہ صرف پشاور میں بلکہ صوبے کے دیگر جگہوں میں بھی ایسا کریں۔
رخشندہ ناز کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی خاتون یا لڑکی کو روزانہ کی بنیاد پرتنگ کرتا ہے، اس کا پیچھا کرتا ہے، نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے اور وہ خاتون یا لڑکی اس کو پہچانتی ہے تو وہ انکے دفتر میں اس حوالے سے باقاعدہ درخواست دے سکتی ہیں۔