خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

خواجہ سرا کی زندگی کی واحد سالگرہ، کیا حقیقت کیا فسانہ

خالدہ نیاز

‘خواجہ سراوں کو زندگی میں کوئی خوشی نہیں ملتی، وہ بھائی کی شادی میں جا کر اپنے ارمان پورے کر سکتے ہیں نہ ہی بہن کو گلے لگا کر رخصت کر سکتے ہیں اسی لیے وہ زندگی میں اپنی ایک ایسی سالگرہ کا اہتمام کرتے ہیں جس میں وہ اپنے سارے ارمان پورے کر سکیں۔’

یہ کہنا ہے خیبر پختونخوا کی پہلی خواجہ سراء اینکر پرسن صوبیا خان کا جنہوں نے گزشتہ رات اپنی سالگرہ دھوم دھام سے منائی۔ صوبیا خان پچھلے تین سال سے ٹرائبل نیوز نیٹ ورک اور مقامی ریڈیوز کے ساتھ پروگرام میزبان کے حیث پہ کام کررہی ہے۔ انہوں نے بی اے کررکھا ہے اور آگے بھی پڑھنا چاہتی ہے۔ صوبیا خان نے کہا کہ انکو بہت خوشی محسوس ہورہی ہے کہ اپنی سالگرہ کے موقع پر اپنے سارے خواہشات پورے کرلیے۔

انہوں نے بتایا کہ خواجہ سرا کے سالگرہ منانے کا مقصد یہی ہے کہ انکی کمیونٹی کے لوگ اکٹھے ہوکرخوشی منائے اور جس خواجہ سرا کی سالگرہ ہو وہ اپنے سارے ارمان بھی نکال لے کیونکہ انکی تو شادیاں بھی نہیں ہوتی۔

مخصوص سالگرہ خواجہ سرا کیوں مناتے ہیں؟

‘جس طرح بہنیں بھائیوں کی شادی پرخوش ہوتی ہیں اور اپنے لیے خوبصورت کپڑے بنواتی ہیں، جوتے اور میچنگ جیولری لیتی ہے اسی طرح جب کسی خواجہ سرا کی سالگرہ ہوتی ہے تو باقی خواجہ سرا اس ایونٹ کے لیے کپڑے خریدتے ہیں اور ناچتے گاتے خوش ہوتے ہیں’ صوبیا خان نے خوش ہوکر بتایا۔

صوبیا خان نے کہا کہ ہر خواجہ سرا اپنی زندگی میں اس طرح ایک سالگرہ مناتا ہے جیسے باقی لوگ شادی مناتے ہیں ‘ ہم ایسی تیاریاں کرتے ہیں جس طرح لوگ شادی کے لیے کرتے ہیں، کپڑوں کے انتخاب میں ہمارا قریبا ایک مہینہ گزر جاتا ہے، ایک سوٹ مہندی کا ہوتا ہے، ایک انٹری کا، ایک ڈانس کے لیے اور ایک سوٹ کیک کے کاٹنے کے لیے بھی ہوتا ہے اس کے علاوہ ہم لوگ کارڈ بھی بنواتے ہیں جس طرح عام لوگ شادیوں کے موقع پر کرتے ہیں اور پھر ہم خواجہ سراوں کے ڈیروں پر جاکرانکو سالگرہ کی دعوت دیتے ہیں اور وہ ہمیں یا تو پیسے یا سوٹ وغیرہ دیتے ہیں جس طرح عام لوگ دعوت کے دوران دیتے ہیں’ صوبیا خان نے پرجوش ہوکر بتایا۔

خواجہ سراؤں کو والدین اپنی خوشیوں میں شریک نہیں کرتے

عموما ایسا ہوتا ہے کہ خاندان والے خواجہ سراوں سے تعلق نہیں رکھتے اور خوشی اور غمی کے موقع پرنہ تو خواجہ سرا اپنے گھر جاتے ہیں اور نہ ہی اپنی کسی خوشی میں خواجہ سرا گھر والوں کو دعوت دیتے ہیں لیکن صوبیا خان کا کہنا ہے کہ اپنے اس بڑے دن کے موقع پر انہوں نے اپنے والدین کو بلایا تھا تاکہ وہ بھی اس کی خوشی میں شریک ہوسکیں۔ ‘ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ جب والدین کو پتہ چلتا ہے کہ انکی اولاد خواجہ سرا ہے تو وہ اس کو گھر سے نکال دیتے ہیں اس کو اپنی خوشی میں بلانا یا اس کی خوشی میں شریک ہونا تو بہت دور کی بات ہے’

 

صوبیا خان نے کہا کہ انکی سالگرہ کے تقاریب ایک ہفتہ پہلے ہی شروع ہوجاتی ہے، جس خواجہ سرا کی سالگرہ ہوتی ہے اس کے لیے باقی خواجہ سرا مہندی لے کرآتے ہیں’ میری جب مہندی کا فنکشن تھا تو میں نے لڑکیوں کی طرح اپنے لیے زرد رنگ کا لباس تیار کیا تھا، باقی خواجہ سراوں نے بھی پیلے رنگ کے لباس زیب تن کئے تھے، ایک ایک خواجہ سرا آکر میرے ساتھ سٹیج پربیٹھتا اور لڑکیوں کی طرح مجھے مہندی لگاتا اس کے بعد چائے وغیرہ کا انتظام تھا اور جب وہ جانے لگے اپنے ڈیروں کو واپس تو میں نے انکو وہ سوٹ دیئے جو میں نے انکے لیے خریدے تھے، باقی خواجہ سرا بھی اسی طرح کرتے ہیں جب انکی سالگرہ ہوتی ہے’

صوبیا خان نے سالگرہ پہ کتنے ڈریسز بنوائے تھے؟

کیک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صوبیا خان نے کہا کہ اس سالگرہ کے لیے انکا کیک بہت خاص ہوتا ہے جس پہ خواجہ سرا کا نام لکھا ہوتا ہے اور انکی تصویر پہ اس پہ لگی ہوتی ہے لیکن سالگرہ کا بنیادی مقصد معاشرے کے ددکارے ہوئے طبقے خواجہ سراوں کو اپنی خوشی میں شامل کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ بھی چند لمحات خوشی کے گزار سکیں کیونکہ انکی نہ تو عیدیں ہوتی ہیں اور نہ خوشی کاکوئی دوسرا ایونٹ۔

صوبیا خان نے کہا کہ ہر خواجہ سرا کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایک ایسی یادگار سالگرہ کا اہتمام کریں اور وہ اس سالگرہ کا اہتمام تب کرتا ہے جب وہ اپنی سالگرہ کے اخراجات برداشت کرسکتا ہو کیونکہ اس سالگرہ پہ ان کا اتنا ہی خرچہ ہوتا ہے جتنا لڑکے یا لڑکی کی شادی پر ہوتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں صوبیا خان نے بتایا کہ انہوں نے اپنی سالگرہ پہ 8 ڈریسز بنوائے تھے، مہندی کا لباس انہوں نے 20 ہزار، انٹری کے لیے 35 ہزار کا ڈریس لیا تھا، ڈانس کے لیے 27 ہزار کا سوٹ لیا تھا اور کیک کے لیے 6 ہزار روپے کا ڈریس خریدا تھا۔

خواجہ سراوں کو بھی انسان سمجھا جائے

خواجہ سرا صوبیا خان نے کہا کہ انکی اس مخصوص سالگرہ میں نہ صرف خواجہ سرا شرکت کرتے ہیں بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس میں شریک ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اپنی سالگرہ پہ انہوں نے دفتر کے ساتھیوں کو بھی مدعو کیا تھا جنکی آمد نے انکی خوشی کو دوبالا کردیا تھا۔

آخرمیں انہوں نے کہا کہ خواجہ سرا بھی انسان ہے جو دکھ درد اور خوشی کو محسوس کرتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے وہ ساری زندگی اپنوں سے دور زندگی گزارتے ہیں اور نہ صرف اپنوں نے انہیں بے یارومددگار چھوڑا ہوتا ہے بلکہ معاشرے کے باقی افراد نے بھی انکی زندگی اجیرن بنارکھی ہوتی ہے، انکو بھی انسان سمجھا جائے اور انکے حقوق کے حوالے سے معاشرے کے لوگوں میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button