نورین کی چھاتی کی گٹھلی جب کینسر میں بدل گئی
خالدہ نیاز
”پہلے تو مجھے بخار ہوتا تھا اور اس کے بعد میری چھاتی میں مجھے گٹھلی سی محسوس ہوتی تھی جس کے بعد میں مقامی بٹ خیلہ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چلی گئی لیکن وہاں کوئی افاقہ نہیں ہوا۔”
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع دیر سے تعلق رکھنے والی نورین نامی خاتون کا کہنا ہے کہ شروع میں ان کو بہت عجیب لگ رہا تھا اور وہ کسی سے اپنے مسئلے کے بارے میں بات کرنے سے کترا رہی تھیں لیکن آہستہ آہستہ ان کو چھاتی میں درد بھی محسوس ہونے لگا جس کے بعد انہوں نے اپنے شوہر کو اس حوالے سے بتایا۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً ہر سال بیس لاکھ خواتین کینسر سے متاثر ہوتی ہیں جن میں سے ایک تہائی اپنی زندگی گنوا بیٹھتی ہیں۔ پاکستان میں ہر سال 90 ہزار کے قریب خواتین میں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوتی ہے جس میں سے 40 ہزار خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
54 سالہ نورین نے بتایا کہ جب ان کے شوہر کو ان کی حالت کا اندازہ ہوا تب انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہاں علاج کرنے کی بجائے ان کو شوکت خانم میموریل ہسپتال لاہور لے جائیں گے جس کے بعد وہ لاہور پہنچے تو وہاں سب سے پہلے ان کا ٹیسٹ کیا گیا اور جب ٹیسٹ کا رزلٹ آیا تو ان میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہو گئی۔
”جب مجھے پتہ چلا کہ مجھے بریسٹ کینسر ہو گیا ہے اور میرا مرض تیسرے درجے پر ہے تو اس وقت میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی کیونکہ ایک تو میرے 7 بچے ہیں مجھے ان کی فکر ہونے لگی دوسرا چھاتی جسم کا ایسا حصہ ہوتا ہے جو ہم ہروقت ڈھانپ کر رکھتے ہیں اور اب تو میرا علاج شروع ہونا تھا، میں بہت تکلیف میں تھی اس وقت، خوفزدہ اس لیے بھی تھی کہ چھاتی کے سرطان میں مبتلا خواتین اکثر بچ نہیں پاتیں” نورین نے بتایا۔
انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد ان کا علاج شروع ہوا اور ابتدا میں ان کا کیمو تھراپی ہوا جس کے ذریعے ان کی چھاتی میں موجود دو گٹھلیوں کو ایک جگہ پر لایا گیا جو خوش قسمتی سے پورے جسم میں نہیں پھیلی تھین، کیمو تھراپی کا وقت بہت سخت تھا، ان کو ہر وقت الٹیاں آتی تھیں اور ان کے سر کے سارے بال بھی جھڑ گئے تھے جس کو دیکھ کر وہ بہت افسردہ ہو جاتی تھیں۔
ماہرین کے مطابق چھاتی کے کینسر کی چار سٹیجز ہیں اور ان میں سب سے خطرناک چوتھا سٹیج ہے جس میں مرض جسم کے دوسرے حصے میں پھیل چکا ہوتا ہے۔ پہلے اور دوسرے مرحلے کا علاج آسانی سے ہو سکتا ہے لیکن تیسرے اور چوتھے مرحلے پر یہ بیماری خاصی پیچیدہ شکل اختیار کر لیتی ہے۔
کیمو تھراپی کے بعد ان کا آپریشن ہوا اور آپریشن کامیاب ہونے کے بعد ریڈی ایشن کا عمل شروع ہوا، ریڈی ایشن شعاعیں ایسی ہوتی ہیں جس میں کوشش کی جاتی ہے کہ اگر کوئی گٹھلی کے ذرات وغیرہ اگر باقی رہ گئے ہوں تو ان کو بھی نکالا جا سکے۔
نورین نے بتایا کہ انہوں نے قریباً 5 سال اپنا علاج کروایا اور اب وہ بالکل ٹھیک ہو چکی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مرض عام طور پر 50 سے 60 برس کی عمر کی عورتوں میں پایا جاتا تھا، لیکن اب کم عمر خواتین بھی اس بیماری میں مبتلا ہو رہی ہیں۔
پاکستان میں بریسٹ کینسر کے لیے کام کرنے والی تنظیم پنک ربن کے مطابق ایشیائی ممالک میں بریسٹ کینسر پاکستان میں سب سے زیادہ ہے اور ملک میں ہر نو میں سے ایک خواتین کو بریسٹ کینسر ہونے کا خطرہ ہے۔
نورین نے خواتین کو پیغام دیا ہے کہ اگر ان کو اپنی چھاتی میں گٹھلی محسوس ہو یا ان کی چھاتی کا رنگ سرخ ہو جائے تو ایسی صورت میں ان کو فوراً بریسٹ کینسر کا ٹیسٹ کروانا چاہئے کیونکہ اگر ابتدا میں مرض کی تشخیص ہو جائے تو وہ مرض کو شکست دے سکتی ہیں لیکن اکر خدانخواستہ وہ تاخیر کریں تو وہ اس مرض سے جان سے بھی ہاتھ دھو سکتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں اکثر خواتین ان کی طرح شرم محسوس کرتی ہیں اور اپنا مرض چھپانے کی کوشش کرتی ہیں تاہم ایسا بالکل نہیں کرنا چاہئے کیونکہ باقی بیماریوں کی طرح یہ بھی ایک بیماری ہے اور اس کا علاج بھی ممکن ہے بس اپنے اندر ہمت پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور ابتدا ہی سے اپنے گھر والوں کو اس حوالے سے بتانا چاہئے۔
نورین نے کہا کہ اگر کسی خاتون کو بریسٹ کینسر ہو تو پھر اس کی بیٹیوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنا ٹیسٹ کروائیں کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ماں میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوجائے تو بیٹیوں میں بھی اس مرض کے لاحق ہونے خطرہ بڑھ جاتا ہے۔