کرونا ویکسین: مونچھ والی عورت اوردُم والا مرد کیسا لگے گا؟
خالدہ نیاز
دنیا بھر میں کورونا وائرس سے وابستہ ہر معاملے میں جدت کے ساتھ ساتھ اس سے جڑے معلومات (خواہ وہ صحیح ہو یا غلط) میں بھی جدت دیکھنے کو مل رہی ہے۔
حال ہی میں کورونا وائرس کی ویکسین متعارف ہونے کے ساتھ ہی اس حوالے سے نئے افواہوں نے بھی جنم لے لیا ہے۔ ویسے تو ان افواہوں سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں لیکن بدقسمتی سے ان افواہوں کو زیادہ تر مسلم ممالک میں زیادہ پروان چڑھایا جاتا ہے۔
دوسرے ممالک کی طرح پاکستان بھی اس لحاظ سے کسی سے پیچھے نہیں ہے اور خاص کر خیبرپختونخوا میں تو اس حوالے سے ایسی افواہیں پھیل چکی ہیں جنہیں بندہ سنے تو کانوں کو ہاتھ لگائیں۔ کورونا وائرس کے پھیلاو پرجس طرح اس کو نہ ماننے کی افواہیں سرگرم عمل تھیں ہو بہو اسی طرح اب اس کے وائرس سے متعلق بھی ہیں۔
زیادہ تر لوگ اس وائرس کو خنزیر کی چربی سے بنی مصنوعات گردانتے ہیں اور اسے لگانے سے انکاری ہیں وہاں یہ چٹکلہ بھی عام ہوگیا ہے کہ اس ویکسین کے لگانے کے کچھ عرصہ بعد عورتوں کے بلیوں جیسے مونچھ جبکہ مردوں کی دم نکل آئیں گی۔
لڑکیاں کرونا ویکسین لگانے کے بعد بانجھ ہو جائیں گی
اب جبکہ پاکستان میں کرونا وائرس کی ویکسین پہنچ چکی ہے تو بھی اس حوالے سے لوگوں میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ نہ صرف ناخواندہ لوگوں میں اس حوالے سے شعور کی کمی ہے بلکہ تعلیم یافتہ افراد بھی کرونا وائرس سے جڑے افواہوں پر جلدی یقین کرلیتے ہیں۔ پشاور سے تعلق رکھنے والی انیلہ نایاب ایک پرائیویٹ سکول کی استانی ہے وہ کہتی ہیں کہ کرونا وائرس ایک خطرناک بیماری ہے اور وہ خود ویکسین لگوانے کی خواہاں ہے تاہم ویکسین کے حوالے سے اس نے بہت کچھ سن رکھا ہے جس نے اس کو پریشان کردیا ہے۔
‘ میں چاہتی ہوں کہ کرونا ویکسین لگاوں لیکن میں نے سن رکھا ہے کہ اگر لڑکیاں کرونا ویکسین لگائیں گی تو ایک تو ان کے جسم پر اور چہرے پر بال نکل آئئیں گے اور دوسری بات یہ کہ وہ بانجھ ہوجائیں گی تو اس وجہ سے اب میں تذبذب کا شکار ہوں تو سوچتی ہوں کہ ویکسین لگاؤں کہ لگاؤں کیونکہ ضروری بھی ہے لیکن اس کے ساتھ مسائل بھی ہوسکتے ہیں’ انیلہ نایاب نے بتایا۔
جب ہمیں پتہ چلے گا کہ ویکسین محفوظ ہے تب لگائیں گے
یاد رہے پاکستان میں آج سے کرونا ویکسین لگانے کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے، آج 40 ہزار ہیلتھ ورکرز کو ویکسین لگائی جائے گی اور آئندہ دنوں میں روزانہ ایک لاکھ سے زائد لوگ ویکسین لگوا سکیں گے۔
انیلا نایاب کی طرح سائرہ بھی اس حوالے سے پریشان ہے اور اس نے ویکسین نہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پشاور کے ایک این جی او میں کام کرنے والی سائرہ کا کہنا ہے کہ کرونا ویکسین کے حوالے سے جو افواہیں پھیلی ہوئی ہے اس نے اس کو بھی خوفزدہ کیا ہے، ان کے مطابق ضروری نہیں ہے کہ ان افواہوں میں کوئی صداقت ہو لیکن ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کرونا ویکسین کے سائیڈ ایفیکیٹ زیادہ ہو کیونکہ ابھی ویکسین کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا اور اس حوالے سے کوئی ریسرچ بھی نہیں ہوئی ہے۔
‘ ہم جب کوئی بھی میڈیسن لیتے ہیں تو پہلے دیکھتے ہیں کہ اس کے سائیڈ ایفیکٹس کیا ہیں کیونکہ اگر ایک دوائی آپ کو فائدہ دے رہا ہے تو اس کا نقصان بھی ہوتا ہے رہی بات کرونا ویکیسن کی تو میں تب تک اس کو نہیں لگاوں گی جب تک مجھے اس بات کی تسلی نہ ہوجائے کہ یہ ویکسین واقعی فائدہ مند ہے اور اس کا نقصان نہیں ہے، یہ ویکسین ویسے بھی باہر کے ملک سے آئی ہے تو جب تقریبا آدھے سے زیادہ پاکستان اس کو لگالے اور ہمیں پتہ چلے کہ یہ محفوظ ہے تو شاید پھر ہم بھی لگالے لیکن اس سے پہلے تو نہیں لگاسکتے کیونکہ ہمیں اپنی جان پیاری ہے’ سائرہ نے کہا۔
سائنوفارم قابل بھروسہ ویکسین ہے
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت فیصل سلطان کے مطابق پاکستان میں تکنیکی اعتبارسے ویکسین 10 کروڑ افراد کو لگ سکتی ہے اور فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرزانکی ترجیح ہیں۔ ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ تھا کہ پہلی کھیپ میں ملنے والی 5لاکھ ویکسین صرف رجسٹرڈ افراد کوہی لگائے جاسکیں گے۔
ویکسین 18سال سے اوپر کے افراد کولگائی جائے گی۔ رواں سال کے آخر تک 70فیصد اہل افراد کے لیے ویکسین فراہم ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ سائنوفارم قابل بھروسہ ویکسین ہے اور 86 فیصد تک کارگرثابت ہوسکتی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے دوسرے علاقوں کی نسبت قبائلی اضلاع کے لوگوں میں کرونا وائرس کے حوالے سے شعور کی کمی ہے جس کی بنیادی وجوہات میں وہاں انٹرنیٹ کی سہولت کا نہ ہونا اور تعلیم کی کمی ہے۔
باجوڑ سے تعلق رکھنے والے سماجی ورکرعبید اللہ کا کہنا ہے کہ یہاں کے لوگ کرونا وائرس پہ بھی زیادہ یقین نہیں رکھتے تو زیادہ تر لوگ اس حق میں نہیں ہونگے کہ وہ ویکسین لگوائے، انہوں نے بتایا کہ کہ یہاں لوگوں کا خیال ہے کرونا کوئی نئی بیماری نہیں ہے اور یہ تو عام زکام ہی ہے اور عام بخار اور لوگ کرونا وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔
عبید اللہ نے کہا ‘میرا اپنا ایک چچا ہے ان میں کرونا وائرس کے علامات تھے لیکن وہ اس بات سے انکاری تھے کہ انکو کرونا وائرس ہوگیا ہے حالانکہ ان کا ٹمپریچر کافی تیز تھا اور باقی علامات بھی ان میں کرونا کے تھے لیکن انہوں نے ٹیسٹ نہیں کیا، یہاں لوگ ٹیسٹ اس لیے نہیں کرواتے کیونکہ انکو ڈر لگتا ہے ہسپتال جانے سے ان کو لگتا ہے کہ ہسپتال سے واپس نہیں آئیں گے’
شاید لوگ حکومتی ڈر سے کرونا ویکسین لگوالے
عبید اللہ نے یہ بھی بتایا کہ قبائلی اضلاع کے لوگ آج تک پولیو ویکسین سے بھی انکاری ہیں اور انکو نہیں معلوم کہ اس کا فائدہ ہے کہ نقصان لیکن حکومت کی ڈر سے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہیں تو اس طرح اگر حکومت کرونا ویکسین بھی لازمی قرار دے اور ٹیمیں گھر گھر جاکر مفت لوگوں کو لگائے تو شاید لوگ حکومتی ڈر سے یہ لگوالے لیکن اگر انکو خود یہ ویکسین خرید کر لگوانا پڑے تو کوئی بھی اس کو نہیں لگوائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت انکو مفت کرونا ویکسین مہیا کرے تو وہ اس کو ضرور لگوائیں گے لیکن انکو خود پیسوں سے خریدنا پڑے تو پھر ان کے لیے مشکل ہوجائے گا کیونکہ انکے گھر میں 16 افراد ہیں وہ کس کس لیے یہ ویکسین اپنے پیسوں سے خریدیں گے۔
یاد رہے پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا کیس فروری 2020 میں آیا تھا اور اب تک کرونا وائرس سے 11802 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں 504046 افراد صحتیاب بھی ہوچکے ہیں۔ کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 5 لاکھ 49 ہزار32 تک جاپہنچی ہے۔
اگر ایک طرف سائرہ کرونا ویکسین لگانے سے انکاری ہے تو دوسری جانب قرات العین نیازی کا کہنا ہے کہ وہ کرونا ویکیسن کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی لیکن یہ ویکسین انسانوں کی حفاظت کے لیے بنائی گئی ہے اور ہر دوائی کے اچھے اور برے اثرات ہوتے ہیں اور کرونا ویکسین کو بھی کچھ سوچ کے بنایا گیا ہے، اس کو ویسے ہی نہیں ملک میں لایا گیا بلکہ اس پہ کافی تجربات کئے ہونگے تب کہیں جاکریہ ہمارے ملک میں پہنچے ہیں۔
سوشل میڈیا پہ کرونا وائرس ویکسین کے حوالے سے افواہوں پہ انہوں نے بتایا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ اس سے لڑکیوں کی مونچھیں نکل آئیں گی یا لڑکوں کے دم نکل آئے گے تو وہ ان باتوں کو نہیں مانتی کیونکہ دنیا بھر میں کرونا ویکیسن لگائی جارہی ہے اور ابھی جو لوگ لگا چکے ہیں تو انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا کہ ویکسین لگانے سے انکے ساتھ ایسا ہوا البتہ باقی ویکسین کی طرح اس کے بھی کچھ سائیڈ ایفیکیٹس ہوسکتے ہیں لیکن وہ تو جب بندہ پیراسیٹامول اور ڈسپرین بھی استعمال کرتا ہے تو اس کے بھی نقصانات ہوتے ہیں۔ قرات العین نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ لوگوں کو یہ ویکسین لگوانی چاہیئے کیونکہ لوگ خسرہ اور پولیو کے ویکسین بھی لگواتے ہیں۔
کرونا ویکسین سے جڑے افواہوں میں کوئی صداقت نہیں
دوسری جانب پشاور میں محکمہ صحت کے اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پہ ٹی این این کو بتایا کہ ان افواہوں میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ کرونا ویکسین لگانے کے بعد لڑکیوں کو بانجھ پن کا مسئلہ ہوسکتا ہے یا کسی کے دم نکل آسکتے ہیں بلکہ کرونا ویکسین ریسرچ بیسڈ ویکسین ہے البتہ جو بھی ویکسین آتے ہیں تو اس کے کچھ سائیڈ ایفیکسٹس ضرور ہوسکتے ہیں لیکن جو افواہیں وہ بالکل بے بنیاد ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ویکسین پہلی بار پاکستان آئی ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ اس کا پتہ چلے گا کہ اس کے کیا کیا نقصانات ہیں، فی الحال اتنا ہوسکتا ہے کہ جس جگہ یہ انجکشن لگائی جاتی ہے تو وہ جسم کا وہ حصہ تھوڑا پھول سکتا ہے یا وہاں تھورا درد ہوسکتا ہے، سر میں درد ہوسکتا ہے اس بندے کو جس کو یہ ویکیسن لگائی جائے لیکن ضروری نہیں کہ سب لوگوں کو یہ مسائل پیش آئے کیونکہ باقی بیماریوں کے لیے بھی جو ویکیسن ہوتے ہیں تو کچھ لوگوں کو اس سے مسائل ہوتے ہیں جبکہ کچھ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
محکمہ صحت کے اہلکار نے بتایا کہ ویکسین لگانے کے لیے باقاعدہ طور پر سنٹرز بنائے گئے ہیں اور جس بندے کو یہ ویکسین لگائی جاتی ہے تو اس کو 30 منٹس تک وہاں رکھا جائے گا، اس دوران دیکھا جائے گا کہ ویکسین لگانے کے بعد اس کی طبیعت کہیں خراب نہ ہو جائے اور اگر اس کو کوئی مسئلہ پیش آئے بھی تو اس کو فورا ایمرجنسی لے جایا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ کرونا ویکسین کے زیادہ خطرناک نتائج کے حوالے سے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا اور دو تین مہینے بعد اس کا بھی پتہ چل جائے گا لیکن افواہوں میں کوئی صداقت نہیں۔