خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

میکے بیٹھی اسماء کا قصور وار کون، ان کا شوہر یا والدین؟

 

شیبا فارس

شادی ایک حساس معاملہ ہے اور حالات و مشاہدات اس بات کو مزید واضح کر دیتی ہیں کہ اگر اس معاملے میں لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا اور مساوات کا خیال نہیں رکھا گیا تو نہ صرف شوہر و بیوی کی زندگی اجیرن بن جاتی ہیں بلکہ دونوں خاندان کے افراد بھی عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

صوابی ٹوپی سے تعلق رکھنے والی اسماء کا گھر بھی اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ فیصلے کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ شادی کی بعد وہ روٹھ کر میکے چلے آئی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس معاشرے کی وجہ سے انکی شادی زبردستی کروائی گئی۔ ‘ ساس اور گھر کے دیگر افراد مجھ پر ظلم کرتے تھے، میری زندگی عذاب بن گئی تھی، بہت تنگ آجانے کے بعد میں بچوں کی ہمراہ والدین کے گھر ائی، زندگی اور بھی مشکل بن گئی ہے کیونکہ میرا کوئی نہیں ہے، اب یہ سوچتی ہوں کہ اگر شادی سے پہلے میرے والدین معاشرے کی بجائے میری زندگی کا سوچ لیتے تو شاید مجھے یہ دن دیکھنے نہ پڑتے’ اسماء نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔

اسماء کے والدین نے اسماء کے شادی سے پہلے اسماء اور اس کے شوہر کے عمر کا خیال نہیں رکھا اور اپنی بیٹی کی مرضی کے بغیر اسکی شادی کردی جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی اپنی بیٹی کی زندگی برباد ہو رہی ہے بلکہ ان کے نواسے اور نواسیاں بھی متاثر ہورہی ہیں جس پر وہ پشیمان ہیں۔

مولانا محسود خان اس حوالے سے کہتے ہیں کہ بچوں کی شادیوں میں عمر کے ساتھ ساتھ رنگ نسل اور نصب کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے، وہ کہتے ہیں کہ سب سے ضروری بات لڑکی کا راضی ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام کہتا ہے کہ لڑکی سے پوچھا جائے انہوں نے کہا کہ بیٹی اور بہن سے شادی کے متعلق پوچھنا شرم کی بات نہیں ہے، اس پر فخر ہونا چاہیے کیونکہ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارک ہیں۔
صوابی میں لڑکیوں کا دینی مدرسہ چلانے والی گل ورینہ بی بی کہتی ہیں کہ جب والدین کو محسوس ہو کہ شادی کے حوالے سے ان کے بچوں کا فیصلہ غلط ہے تو وہ ان کو سمجھا سکتے ہیں لیکن اس کیلئے بھی شرط ہیں کہ وہ زبردستی نہیں کرینگے کیونکہ شاید وہ لڑکی ناسمجھ ہو اور اس میں اسلامی تعلیمات کا بھی خیال نہ رکھ سکے، شادی کے وقت عمر نصب ، نوکری سمیت تمام برابری کو مدنظر رکھنا چاہیئے۔
گل ورینہ کہتی ہیں کہ مرضی کی شادی کی اجازت ہے لیکن پھر بھی اس میں اپنے والدین کی رائے شامل کرنی چاہیے۔

نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی ناہید خود بچوں کی ماں ہیں وہ کہتی ہیں کہ والدین بچوں کیلئے غلط فیصلہ نہیں کرتے اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی شادی وہاں ہو جہاں وہ خوش ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ زندگی کا بہت اہم فیصلہ ہوتا ہے اس میں والدین کا مشورہ ضروری ہے۔
‘جب بھی بچوں نے اپنی مرضی سے فیصلے کیے ہیں تو اکثر وہ شادی ناکام ہوتی ہیں، لڑکا بیوی کو طلاق دے دیتا ہے اور بچوں کی زندگی بھی برباد ہوجاتی ہیں’ ناہید نے بتایا۔
لیکن دوسری طرف اسماء کہتی ہیں کہ ایک لڑکی کا کسی رشتے سے انکار کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ کسی اور لڑکے کے ساتھ بھاگنے کا پروگرام رکھتی ہیں لیکن اس کو یہ پتہ ضرور ہوتا ہے کہ جس شخص کے ساتھ اسکی شادی طے ہورہی ہے اس کے ساتھ وہ اپنی پوری زندگی نہیں گزار سکتی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button