‘پبلک ٹرانسپورٹ میں ہراسانی کی وجہ سے میری کئی دوستوں نے نوکریاں چھوڑ دیں’
آمنہ استمراج
"پہلے جب ہم سکول پڑھنے جاتے تھے تب بھی ہمیں پبلک ٹرانسپورٹ میں ہراساں کیا جاتا تھا اور اب جب ہم نوکریاں کرنے جاتے ہیں تب بھی ہم پبلک ٹرانسپورٹ میں خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے کی سوچ ایسی ہے کہ وہ باہر کام کرنے والی خواتین کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں اور انہیں تنگ کرتے ہیں”
یہ الفاظ مردان کے علاقہ شہباز گھڑی سے تعلق رکھنے والی پرائیوٹ سکول کی استانی سائیکا شاہ کے ہیں جہنوں نے پبلک ٹرانسپورٹ میں روز مرہ پیش آنے والی ہراسانی کے واقعات کی تفصیلات ٹی این این کے ساتھ شئیر کی ہیں۔
سائیکا شاہ کے مطابق وہ سکول جانے کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتی ہے جہاں انہیں ہر روز ہراساں کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ تنگ آچکی ہے پر مجبوری اور گھریلوں اخراجات پورے کرنے کیلئے وہ یہ سب کچھ سہتی ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے سائیکا شاہ کا کہنا تھا کہ سکول کی دیگر استانیوں نے سکول آنے جانے کیلئے خصوصی گاڑیاں کرایہ پر رکھی ہے تاہم وہ کم تنخواہ کی وجہ سے خصوصی گاڑیوں میں سفر نہیں کرسکتی اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتی ہے۔
وہ کہتی ہے پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کو ہراساں کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ اگر دیکھا جائے تو پہلے یہاں لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت نہیں دی جاتی اور اگر کوئی لڑکی تعلیم حاصل کرکے نوکری کرنے جاتی ہیں تو انہیں پھر اس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سائیکا شاہ کے مطابق ہراسانی کے معاملے پر بات کرنا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی لڑکی اپنے ساتھ ہونی والی ہراسانی کے واقعات گھر والوں اور دیگر لوگوں کے ساتھ شیئر کرتی ہے تو لوگ اس پر کیچڑ اچالنا شروع کردیتے ہیں اور اس کے دامن پر بدنامی کا داغ لگ جاتا ہے جو ساری عمر نہیں دھلتا۔
سائیکا شاہ بتاتی ہے کہ کچھ عرصہ قبل اس کے ساتھ سکول میں پڑھانے والی 3 اساتذہ نے اس وجہ سے نوکری چھوڑی کیونکہ انہیں کسی نہ کسی طریقے سے پبلک ٹرانسپورٹ میں ہراساں کیا جاتا تھا کوئی انہیں عجیب نظروں سے دیکھتا تو کوئی ان کے پچیھے آوازیں کستا تھا۔
سائیکا شاہ کے علاقے شہباز گھڑی میں پبلک ٹرانسپورٹ باآسانی مل سکتا ہے تاہم مردان کے کچھ علاقوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا ملنا بھی آسان نہیں ہے۔
خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم عورت فاونڈیشن کے ایک سروے کے مطابق 90 فیصد خواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ جبکہ 82 فیصد کو مختلف طریقوں سے بس سٹاف پر ہراساں کیا جاتا ہے۔
یہ سروے 2017 کو پنجاب میں عورت فاؤنڈیشن اور اقوام متحدہ کی خواتین کی مشترکہ کمشین برائے اسٹیٹس آف ویمن کے تعاون سے کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق بس سٹاپوں پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کی سب سے عام اقسام میں گھورنا ، فحش اشارے ، سیٹھی بجانا ، جنسی تبصرے کرنا اور چھونا شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنیادی طور پر پبلک ٹرانسپورٹ میں ان خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے جن کی عمریں 20 سے 29 سال کی درمیان میں ہوتی ہیں جن میں 62 فیصد مسافروں جبکہ 97 فیصد ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کی جانب سے ہراسگی کا شکار ہوتی ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہراسگی کی واقعات کی وجہ سے خواتین میں صنفی احساس کمتری پیدا ہوتی اور انہیں نوکری اور دیگر کاموں میں مشکلات پیش آتی ہے جس کی وجہ ان معاشی زندگی پر منفی اثر پڑتا ہے۔
گجر گھڑی سے تعلق رکھنے والی طالبہ سائرہ خان بھی پبلک ٹرانسپورٹ نہ ملنے کی فریاد کرتی ہے اور کہتی ہے کہ یونیورسٹی میں داخلہ ملنے کے بعد وہ مردان شیخ ملتون کے پرائیوٹ ہاسٹل میں رہ رہی ہے لیکن یہاں بھی ان کی یہ مشکلات کم نہ ہوسکی اور اب بھی انہیں ہاسٹل سے یونیورسٹی جاتے وقت پبلک ٹرانسپورٹ ملنے میں مشکلات درپیشں ہے۔
"ہاسٹل سے یونیورسٹی جانے کیلئے ہم بس میں سفر کرتے تھے پر اب میری کلاس اور بس کے ٹائمنگ میں فرق آیا ہے اس وجہ میں یونیورسٹی جانے کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتی ہوں لیکن میں اس میں خود غیر محفوظ سمجتھی ہوں کیونکہ جب ہم سٹاپ پہ جنگ چی کا انتطار کرتے ہیں تو لوگ ہمارے ارد گرد گھومتے پھرتے ہیں اور جب ہمیں جنگ چی میں جگہ ملتی ہے تب دو تین موٹرسائیکلیں ہمارا پیچھا کرتی ہیں۔”
مردان میں خواتین کو ٹرانسپورٹ کے سلسلے میں درپیش مسائل کے حل کیلئے ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی مردان نے 2019 اپریل میں ‘پنک بس’ سروس شروع کی تھی اور اس منصوبے کے تحت مردان کے مختلف علاقوں میں 10 بسیں چلائی جاتی تھی جس میں صرف خواتین کو سفر کرنے کی اجازت تھی لیکن وہ سروس بھی مخلتف وجوہات کی بنا پر ناکام ہوئی اور چند مہینے چلنے کے بعد حکومت کی جانب سے اسے بند کردیا گیا۔
سائرہ خان کے نے پنک بس کی خاطر یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا کیونکہ اس سروس میں خواتین کو بہت سہولت دی جاتی تھی اور اس میں کنڈیکٹر بھی ایک خاتون تھی جہاں وہ خود کو محفوظ سمجتھی تھی۔
سائرہ خان سمجتھی ہے کہ پنک بس سروس ختم ہونا دراصل خواتین کیلئے بدقسمتی کی بات ہے کیونکہ جب سے وہ سروس ختم ہوئی ہے خواتین دوبارہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے پر مجبور ہوئی ہے جہاں اب بھی انہیں مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے۔
پنک بس سروس ختم ہونے کے بعد محکمہ ٹرانسپورٹ اور مردان انتطامیہ پر شدید تنقید کی گئی اور اس حوالے سے سماجی کارکن اور ماہرین کہتے ہیں کہ یہ بہت اچھی سروس تھی لیکن اسے بغیر منصوبہ بندی سے شروع کیا گیا تھا اسلئے بند ہونا اس کے مقدر میں تھا۔
مردان میں ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے ریجنل سیکرٹری مجیب الرحمان بھی سماجی کارکن اور ماہرین سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں چونکہ مردان میں خواتین بہت کم گھروں سے باہر نکلتی ہیں اسلئے بس سروس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے امید ظاہر کی ہے مردان میں بہت جلد یہ سروس دوبارہ شروع کی جائے گی جس میں سفر کرنے والی خواتین ساتھ ان کے مردوں کو بھی سفر کرنے کی اجازت دی جائے گئی۔
مجیب الرحمان کے مطابق پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی انہوں نے خواتین کیلئے فرنٹ سیٹ مختص کیا ہے جس میں صرف خواتین کو سفر کرنے کی اجازت دی جاتی ہیں اور اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو رپورٹ ہونے کے بعد ہم ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہیں۔
مقامی افراد کے مطابق اگر ٹرانسپورٹ ریجنل سیکرٹری مجیب الرحمان کا دعویٰ درست ثابت ہوجائے اور پنک بس سروس دوبارہ فعال کیا جائے تو اس سے نہ صرف، خواتین، طالبات اور نوکر پیشہ خواتین کو سہولیات مل سکتی ہیں بلکہ گھریلوں ضرورت کیلئے باہر نکلنے والی خواتین بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھ سکتی ہیں۔